حسان خان

لائبریرین
«فرہاد» نے «شیریں» کی خاطر اپنے تیشے سے کوہ کو کھود کر اُس میں سے جُوئے شِیر نِکالی تھی۔ ایک «کشمیری» شاعر «خواجه ابوالفتح خان جُنون کشمیری» کہتے ہیں کہ جو کار «فرہاد» نے زحمت و مشقّت اُٹھاتے ہوئے تیشے کے ذریعے سے کیا تھا، وہی کار وہ زمانۂ پِیری (بُڑھاپا) میں ایک سُوئی جیسے پلک کے بال سے کر لیتے ہیں۔ اُنہوں نے اپنی پلکِ چشم پر موجود مِژگانِ سفید کی سطر کو ایک جُوئے شِیر، یعنی دودھ کی نہر، سے تشبیہ دی ہے جس کو وہ وُجود میں لے آئے ہیں۔
شاید اِس مندرجۂ ذیل بیت میں جوانوں کے زور و قوُّت پر پِیروں کی تجرِبہ‌مندی کی برتری ظاہر کرنا بھی مقصود ہو۔

پیر کارِ تیشهٔ فرهاد از سوزن کند

ما به مِژگانِ سفیدی جُویِ شِیر آورده‌ایم

(خواجه ابوالفتح خان جُنون کشمیری)

شخصِ پِیر (بوڑھا)، «فرہاد» کے تیشے کا کام سُوئی سے کرتا ہے۔۔۔ ہم اپنی مِژگانِ سفید کے ذریعے سے جُوئے شِیر لے آئے ہیں۔۔۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
[مُلکِ «کشمیر» کی فارسی ادبی میراث میں سے ایک ادبی لطیفہ]

صاحبِ دیوان فارسی شاعر «میرزا داراب بیگ جویا کشمیری» کِشوَرِ «کشمیر» میں مُتَوَلِّد ہوئے تھے اور «کشمیری» تھے، لیکن اُن کے آباء اصلاً «ایران» سے «کشمیر» میں آئے تھے۔ شاعرِ مذکور مذہباً شیعی تھے۔ فارسی کتاب «تاریخِ اعظمی» میں مرقوم ہے کہ اُنہوں نے اکابرِ اہلِ سُنّت و جماعت میں سے کسی کے لیے شوخی میں اور ایہام کے ساتھ مُہمَل‌گوئی کرتے ہوئے‌ یہ لِکھا تھا:

بر سرش گُل باد گُرزِ آتشین
بر تنش نارِ جهنّم نور باد


گُرزِ آتشیں اُس کے سر پر گُل ہو جائے (یا گُل اُس کے سر پر گُرزِ آتشیں ہو جائے)!۔۔۔۔ اُس کے تن پر نارِ جہّنم نُور ہو جائے!

لہٰذا جب ۱۱۱۸ھ میں میرزا کی رحلت ہوئی تو کسی شاعرِ سُنّی نے بھی جواب دیتے ہوئے اُن کی تاریخِ وفات کا مادّہ نکالنے کے لیے یہ شوخی کی:

رافضی تاریخِ جویا، بِست و هفتش بود کم
چونکه گز کردند او را گشت تاریخش درست


«جویا» کی تاریخ «رافِضی» ہے، [لیکن] اُس میں ستّائیس کم تھا۔۔۔ جب اُس شخص کو "گز" [کے ڈنڈے] سے ناپا گیا (یا ڈنڈا یا آہنی سلاخ یا تیر مارا گیا) تو اُس کی تاریخ دُرُست ہو گئی۔

ابجد کے رُو سے «رافضی» کے اعداد «۱۰۹۱» اور «گز» کے اعداد «۲۷» ہیں۔۔۔ جب اِن دونوں کو جمع کیا جائے تو «۱۱۱۸» بنتا ہے جو شاعر کا سالِ وفات ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
کِشوَرِ «کشمیر» سے بہنے والے «دریائے جہلم» کا ایک مقامی نام «بِهَت» بھی ہے۔ اُس دریا کی سِتائش میں کہی ایک بیت میں «کشمیری» شاعر «محمد رِضا مُشتاق کشمیری» کہتے ہیں:

بِیا که حاجتِ مَی نیست در کنارِ بِهَت
شرابِ ناب بُوَد آبِ خوش‌گوارِ بِهَت
(محمد رِضا مُشتاق کشمیری)


آؤ! کہ دریائے «بِہَت» کے کنارے شراب کی حاجت نہیں ہے۔۔۔ [کیونکہ] دریائے «بِہَت» کا آبِ خوش‌گوار شرابِ خالِص ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
نمازِ عید خواهم کرد، هان، ساقی، بِیار آبی
برایِ آب‌دستِ من ز اِبریقِ قدَح‌شُویان
(کمال خُجَندی)


اَلا اے ساقی! میں نمازِ عید کروں گا، [لہٰذا] پِیالۂ [شراب] دھونے والوں کے آفتابے (لوٹے) میں سے میرے وُضو کے لیے ذرا آب لے آؤ۔
 

حسان خان

لائبریرین
دِیارِ «کشمیر» کی سِتائش میں «مُنیر لاهوری» کی ایک مثنوی کی ابتدائی چار ابیات:

خوشا کشمیر و وضعِ بی‌نظیرش
که گردیده اِرم، فرمان‌پذیرش
چه کشمیر؟ آب و رنگِ رُویِ گُلشن
نِگه را از خیالش گُل به دامن
چه کشمیر؟ آب‌رویِ باغِ خُوبی
فدایِ هر نِهالش صد چو طوبی
زمینِ او گُلی از گُلشنِ عیش
نسیمش خوشه‌چینِ خِرمنِ عیش
(مُنیر لاهوری)


خوشا «کشمیر» اور اُس کی وضعِ بے‌نظیر!۔۔۔ کہ «اِرَم» [بھی] اُس کی مُطیع ہو گئی ہے۔۔۔ کیسا کشمیر؟۔۔۔۔ چہرۂ گُلشن کا آب و رنگ۔۔۔ [اور] جس کے خیال سے نِگاہ گُل بہ دامن ہے۔۔۔۔۔ کیسا کشمیر؟۔۔۔۔ باغِ خُوبی کی آبرو۔۔۔ اور جس کے ہر نِہال پر طوبیٰ جیسے صد [درخت] فدا ہیں!۔۔۔ اُس کی زمین گُلشنِ عَیش کا اِک گُل ہے، اور اُس کی [بادِ] نسیم خِرمنِ عَیش کی خوشہ‌چِیں ہے۔۔۔
 

حسان خان

لائبریرین
سرافرازی اگر داری هوَس کسبِ تواضُع کن
به ابرو بین که جا بر چشم دارد از خمیدن‌ها
(مُلّا صُبحی کشمیری‌)


اگر تم کو سرفرازی کی آرزو ہے تو فُرُوتَنی و خاکساری اِختِیار کرو۔۔۔ ابرو کو دیکھو کہ [اپنی] خمیدگیوں کے باعث اُس کی جگہ بالائے چشم ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
گُلِ «لالہ» کے درمیان ایک سیاہ داغ دِکھائی دیتا ہے، جس کے باعث فارسی شاعری میں اکثر اُس گُل کو «دل‌سوختہ» اور «داغ‌دار» کہہ کر یاد کیا جاتا ہے۔ اب مُلاحظہ کیجیے کہ ایک «کشمیری» شاعر «بینِش کشمیری» اپنی ایک بیت میں کیا کہتے ہیں:

سرم ز آتشِ شوقِ تو آن‌چُنان گرم است
که همچو لاله مرا داغ‌دار گشت کُلاه

(بینِش کشمیری)

[اے یار!] تمہارے اِشتِیاق کی آتش سے میرا سر اِس قدر [زیادہ] گرم ہے کہ گُلِ لالہ کی مانند میری کُلاہ داغ‌دار ہو گئی [ہے]۔
× کُلاہ = ٹوپی
 

محمد وارث

لائبریرین
ہر کس بزیرِ تیغ برویت نظارہ کرد
زاں پیشتر کہ کشتہ شود خوں بہا گرفت


عرشی یزدی

جس کسی نے بھی (تیری) تلوار کے نیچے تیرے چہرے کا نظارہ کر لیا، اِس سے پہلے کہ وہ مارا جاتا، اُس نے (اپنے قتل کا) خوں بہا حاصل کر لیا۔
 
سراسر جمله عالم پر شهیدست
شهیدی چون حسینِ کربلا کو؟
(سنایی غزنوی)

پوری دنیا شہیدوں سے پُر ہے (لیکن) حسینِ کربلا(علیہ سلام) جیسا شہید کہاں ہے؟
 

حسان خان

لائبریرین
ایک «کشمیری» شاعر «اَوجی کشمیری» اپنی مثنوی «ساقی‌نامه» کی ایک بیت میں «حضرتِ علی» سے محبّت کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں:

ازان پیش کآمیخت جان در گِلم
به مِهرِ علی شد مُخمَّر دِلم

(اَوجی کشمیری)

قبل اِس کے کہ جان [و زِندگی] نے میری گِل کے ساتھ آمیزش کی
میرا دِل حُبِّ علی کے ساتھ مُخَمَّر کیا گیا (گُوندھا گیا)
 

حسان خان

لائبریرین
ایک «کشمیری» شاعر «اَوجی کشمیری» اپنی مثنوی «ساقی‌نامه» میں ساقی سے شراب کی طلب و خواہش کرتے ہوئے کہتے ہیں:
بِیا ساقی آن شوخِ آتش‌عِذار
همان تُرکِ سرمستِ ساغرسوار
بِدِه، تا بِتازد به فوجِ الَم
شوَم ایمِن از تُرک‌تازیِ غم

(اَوجی کشمیری)
آؤ، اے ساقی، وہ شوخِ آتش‌رُخسار [لے آؤ]۔۔۔ وہی [چیز] کہ جو ساغر کی سواری کرنے والی [اِک] تُرکِ سرمست ہے۔۔۔ [مجھے] دو تاکہ وہ فوجِ الَم پر حملہ کر دے اور میں غم کی تاخت و تاراجی و غارت‌گری سے محفوظ ہو جاؤں!
 

حسان خان

لائبریرین
«تارسر» و «مارسر» دِیارِ «کشمیر» کے دو تالابوں کے نام ہیں۔ ایک «کشمیری» شاعر «تَوفیق کشمیری» ایک بیت میں کہتے ہیں:

در یادِ دو زُلفِ بُتِ کشمیرنِژادی
شُد تارسر و مارسر از گِریه دو چشمم
(تَوفیق کشمیری)


ایک کشمیری‌نِژاد معشوقِ زیبا کی دو زُلفوں کی یاد میں میری دو چشمیں گِریے سے «تارسر» و «مارسر» [میں تبدیل] ہو گئیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
مُلکِ «کشمیر» میں نہ فقط مَردوں نے، بلکہ زَنوں نے بھی میری زبانِ فارسی میں شاعری کی ہے۔ آخِر مَیں «کشمیری» قَوم و مِلّت سے محبّت کیوں نہ کروں؟! ایک «کشمیری» شاعرہ کی ایک فارسی بیت دیکھیے:

مو به مو در ناله‌ام گویی که اُستادِ ازل
رِشتهٔ جانم به جایِ تار در طنبور بست
(بُزُرگی کشمیریه)


میرا ہر ایک بال [اور میرا ہر ایک عُضْو] نالے میں ہے، گویا اُستادِ ازل (خُدا) نے تار کی بجائے [میرے] رِشتۂ جاں کو طنبور میں باندھا [ہے]۔
× رِشتہ = دھاگا
× طنبور = ایک سازِ موسیقی کا نام
 

حسان خان

لائبریرین
به جایِ سبزه شرر می‌دمَد ز خاک اَوجی
به هر کُجا که برافشانده‌ایم دانهٔ چشم
(اَوجی کشمیری)


اے «اَوجی»! ہم نے جس بھی جگہ دانۂ چشم چِھڑکایا ہے، وہاں خاک سے سبزے کی بجائے شرر اُگتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
چو دیده باز کنم بر رُخِ تو از حیرت
کند نگاه فراموش راهِ خانهٔ چشم
(اَوجی کشمیری)


میں جب [اپنی] چشم کو تمہارے چہرے کی جانب کھولتا ہوں تو حَیرت سے [میری] نِگاہ، خانۂ چشم کی راہ فراموش کر دیتی ہے۔
× خانه = گھر
 

حسان خان

لائبریرین
به عالَم هر دِلی کو هوش‌مند است
به زنجیرِ جُنونِ عشق بند است
(بهاءالدین عامِلی 'شیخ بهایی')


عالَم میں جو بھی دل ہوش‌مند ہے، وہ زنجیرِ جُنونِ عشق میں قید ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
«خواجه ابوعلی حسنک وزیر» کی سِتائش میں ایک بیت:

گیتی اندر دستِ او وز مالِ گیتی دست‌پاک
این‌چُنین اندر جهان هرگز کُجا بُد جُز عُمَر
(فرُّخی سیستانی)


دُنیا اُس کے دست میں ہے، [لیکن] مالِ دُنیا سے اُس کا دست پاک ہے۔۔۔ اِس طرح کا [کوئی شخص] جہان میں «حضرتِ عُمَر» کے بجُز ہرگز کہاں تھا؟
 

حسان خان

لائبریرین
(مصرع)
زبان‌فهمی به جُز دل نیست آن چشمِ سُخن‌گو را
(مُلّا فُروغ کشمیری)

اُس چشمِ سُخن‌گو کا، دل کے بجُز، کوئی زباں‌فہم نہیں ہے
 

حسان خان

لائبریرین
تا حَرفِ غمِ تو کرده‌ام گوش
شُد ابجدِ شادی‌ام فراموش
(مُلّا ذهنی کشمیری)


جب سے میں نے تمہارے غم کا حَرف (بات) سُنا ہے، مجھ کو شادمانی کی ابجَد (یعنی حُروفِ تہجّی) فراموش ہو گئی ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
«فِتراک» اُس تسمے کو کہتے ہیں جو اسْپ کی زِین سے لٹکا ہوا ہوتا ہے اور جس سے شِکار کو یا کسی دیگر چیز کو اسْپ کے ساتھ باندھا جاتا ہے۔ فارسی-تُرکی شعری روایات میں یہ لفظ عموماً شِکار و صیّادی کی مُناسبت سے استعمال ہوتا ہے، اور کلاسیکی شاعری کے اندر شاعران کئی بار اپنے محبوب کے بدست شِکار ہو جانے کے بعد اُس کے فِتراک میں بندھے ہوئے ہونے کی آرزو کرتے ہیں اور اِس چیز کو خود کے لیے سعادت تصوُّر کرتے ہیں۔

ایک «کشمیری» شاعر «اَوجی کشمیری» کی ایک بیت دیکھیے جس میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے:

هر سر که بستهٔ خَمِ فِتراکِ او بُوَد
دانم یقین که روزِ جزا سُرخ‌رُو بُوَد
(اَوجی کشمیری)


جو بھی سر اُس (محبوب) کے فِتراک کے خَم سے بندھا ہوا ہو، میں یقین جانتا ہوں کہ وہ بہ روزِ جزا سُرخ‌رُو و شادمان و خوش‌حال ہو گا۔

=================

میرے محبوب‌ترین تُرکی شاعر جنابِ «محمد فُضولی بغدادی» کی ایک فارسی بیت بھی دیکھیے:

گُفتَمَش: از خود فُضولی را میَفکن دُور، گُفت:
نیست این صَیدِ مُحَقَّر قابلِ فِتراکِ ما
(محمد فضولی بغدادی)


میں نے اُس سے کہا: "«فُضولی» کو خود سے دُور مت پھینکو۔" اُس نے کہا: "یہ حقیر شِکار ہمارے فِتراک کے قابل نہیں ہے۔"
 
Top