حسان خان
لائبریرین
«فرہاد» نے «شیریں» کی خاطر اپنے تیشے سے کوہ کو کھود کر اُس میں سے جُوئے شِیر نِکالی تھی۔ ایک «کشمیری» شاعر «خواجه ابوالفتح خان جُنون کشمیری» کہتے ہیں کہ جو کار «فرہاد» نے زحمت و مشقّت اُٹھاتے ہوئے تیشے کے ذریعے سے کیا تھا، وہی کار وہ زمانۂ پِیری (بُڑھاپا) میں ایک سُوئی جیسے پلک کے بال سے کر لیتے ہیں۔ اُنہوں نے اپنی پلکِ چشم پر موجود مِژگانِ سفید کی سطر کو ایک جُوئے شِیر، یعنی دودھ کی نہر، سے تشبیہ دی ہے جس کو وہ وُجود میں لے آئے ہیں۔
شاید اِس مندرجۂ ذیل بیت میں جوانوں کے زور و قوُّت پر پِیروں کی تجرِبہمندی کی برتری ظاہر کرنا بھی مقصود ہو۔
پیر کارِ تیشهٔ فرهاد از سوزن کند
ما به مِژگانِ سفیدی جُویِ شِیر آوردهایم
(خواجه ابوالفتح خان جُنون کشمیری)
شخصِ پِیر (بوڑھا)، «فرہاد» کے تیشے کا کام سُوئی سے کرتا ہے۔۔۔ ہم اپنی مِژگانِ سفید کے ذریعے سے جُوئے شِیر لے آئے ہیں۔۔۔
شاید اِس مندرجۂ ذیل بیت میں جوانوں کے زور و قوُّت پر پِیروں کی تجرِبہمندی کی برتری ظاہر کرنا بھی مقصود ہو۔
پیر کارِ تیشهٔ فرهاد از سوزن کند
ما به مِژگانِ سفیدی جُویِ شِیر آوردهایم
(خواجه ابوالفتح خان جُنون کشمیری)
شخصِ پِیر (بوڑھا)، «فرہاد» کے تیشے کا کام سُوئی سے کرتا ہے۔۔۔ ہم اپنی مِژگانِ سفید کے ذریعے سے جُوئے شِیر لے آئے ہیں۔۔۔
آخری تدوین: