حسان خان
لائبریرین
زبانِ فارسی میں «مردُم» کا معنی «لوگ، شخص، انسان» ہے، جبکہ «مردُمِ چشم/مردُمَکِ چشم» چشم کی پُتلی کو کہا جاتا ہے۔ اِن دونوں الفاظ کی باہمی مُناسبت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے «کشمیری» شاعر «غنی کشمیری» نے ایک بیت میں یہ شعری مضمون باندھا ہے:
دهر ناامن چُنان گشته که چون مردُمِ چشم
تا درِ خانه نبَندم، نبَرَد خواب مرا
(غنی کشمیری)
زمانہ اِس قدر [زیادہ] ناامن و غیرمحفوظ ہو گیا ہے کہ جب تک مردُمِ چشم کی مانند مَیں گھر کا در بند نہ کروں، مجھ کو نیند نہیں آتی۔
(یعنی جس طرح نیند اُسی وقت آتی ہے جب «مردُمِ چشم» (یعنی پُتلی) اپنے خانۂ چشم کا در (یعنی پپوٹا) بند کر لیتا ہے۔ اُسی طرح میں بھی جب تک اپنے گھر کا در بند نہ کر لوں، زمانے کی غیرمحفوظی سے خَوف کے باعث مجھ کو نیند نہیں آتی۔)
دهر ناامن چُنان گشته که چون مردُمِ چشم
تا درِ خانه نبَندم، نبَرَد خواب مرا
(غنی کشمیری)
زمانہ اِس قدر [زیادہ] ناامن و غیرمحفوظ ہو گیا ہے کہ جب تک مردُمِ چشم کی مانند مَیں گھر کا در بند نہ کروں، مجھ کو نیند نہیں آتی۔
(یعنی جس طرح نیند اُسی وقت آتی ہے جب «مردُمِ چشم» (یعنی پُتلی) اپنے خانۂ چشم کا در (یعنی پپوٹا) بند کر لیتا ہے۔ اُسی طرح میں بھی جب تک اپنے گھر کا در بند نہ کر لوں، زمانے کی غیرمحفوظی سے خَوف کے باعث مجھ کو نیند نہیں آتی۔)