حسان خان

لائبریرین
ایک «کشمیری» شاعر «اَوجی کشمیری» اپنی مثنوی «ساقی‌نامه» کی ایک بیت میں ساقی سے شراب کی طلب و خواہش کرتے ہوئے کہتے ہیں:

مَی‌ای دِه که هم‌دم به عنقا شوَم
ز آلایشِ تن مُبرّا شوَم
(اَوجی کشمیری)


[اے ساقی! مجھے] اِک مَے دو کہ میں «عنقا» کا ہم‌دم ہو جاؤں اور آلائشِ تن سے پاک ہو جاؤں۔۔۔ (یعنی اِک ایسی شراب دو کہ جس سے مَیں آلائش جیسے اِس تن سے دُور ہو کر پرندۂ «عنقا» کی مانند عالَمِ معنویت و روحانیت کے کوہِ قاف پر عُزلَت و گوشہ‌نشی اختیار کر لوں۔)
 

حسان خان

لائبریرین
تمامِ سال اگر بِگْذرد به غم چه عجب
که نخلِ ماتمِ ما گشت در مُحرّم سبز
(مُحسِن فانی کشمیری)


اگر [ہمارا] تمام سال غم میں گُذرے تو کیا عجب؟۔۔۔ کہ ہمارے سوگ [و غم] کا درخت ماہِ‌ مُحرّم میں سبز ہوا (اُگا) ہے۔

============

مندرجۂ بالا فارسی بیت سے یہ اُردو بیت یاد آ گئی:

رہے کیونکر نہ دل ہر دم نشانہ ناوکِ غم کا
کہ ہے میرا تولُّد ہفتُمِ ماہِ مُحرّم کا
(امام بخش ناسخ)
 

حسان خان

لائبریرین
کِشوَرِ «کشمیر» کے ایک «کشمیری» شاعر «مُحسِن فانی کشمیری» کی ایک بیت میں «گُلشنِ کشمیر» کا ذِکر:

در بهارِ گُلشنِ کشمیر فانی هر طرف
جُز شرابِ ناب شمعِ مجلسِ احباب نیست
(مُحسِن فانی کشمیری)


اے «فانی»! گُلشنِ کشمیر کی بہار میں ہر طرف، شرابِ خالص کے بجُز مجلسِ احباب کی [کوئی] شمع نہیں ہے۔ (یعنی ہر طرف مجلسِ احباب شرابِ ناب کی شمع ہی سے روشن ہے۔)
 

محمد وارث

لائبریرین
رُباعی از ہلالی چغتائی

روز و شبِ من بہ گفتگوئے تو گذشت
سال و مہِ من بہ جستجوئے تو گذشت
عمرم بطوافِ گردِ کوئے تو گذشت
القصہ، در آرزوئے روئے تو گذشت


میرے شب و روز تیری ہی باتیں کرتے گذر گئے، میرے ماہ و سال تیری ہی جستجو میں گزر گئے، میری عمر تیرے کوچے کے گرد طواف کرتے گزر گئی، قصہ مختصر، میری ساری زندگی تیرے چہرے کی آرزو میں گزر گئی۔
 

حسان خان

لائبریرین
«کشمیری» مِلّت کے مِلّی وطن «کشمیر» کی سِتائش میں ایک بیت:

فیضِ پیاله بخشد آب و هوایِ کشمیر
از خِشتِ خُم نِهادند گویی بِنایِ کشمیر
(طالب آمُلی)


«کشمیر» کی آب و ہوا پِیالۂ [شراب] کا فَیض بخشتی ہے (یعنی شراب کے جیسا سُرور و سرخوشی دیتی ہے)۔۔۔ [ایسا محسوس ہوتا ہے کہ] گویا «کشمیر» کی بُنیاد خُمِ [شراب] کی خِشت (اینٹ) سے رکھی گئی تھی۔

× «خِشتِ خُم» اُس خِشت کو کہتے ہیں کہ جس کے سہارے خُمِ شراب کو رکھا جاتا ہے، یا جس کے ذریعے سے خُمِ شراب کے سر کو بند کیا جاتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
باده‌کش را توبه کردن در جوانی مُشکِل است
خِضر را بی آبِ حَیوان زندگانی مُشکِل است
(مُحسِن فانی کشمیری)


بادہ‌نوش کے لیے جوانی میں توبہ کرنا مُشکِل ہے۔۔۔ «خِضر» کے لیے آبِ حیات کے بغیر زِندگی مُشکِل ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
ز گِریه فیض به زاهد نمی‌رسد فانی
گِیاهِ خُشک نگردد به آبِ زمزم سبز
(مُحسِن فانی کشمیری)


اے «فانی»! گِریے سے زاہد کو کوئی فَیض نہیں پہنچتا۔۔۔ جو گِیاہ (پودا) خُشک ہو، وہ آبِ زمزم سے [بھی] سبز نہیں ہوتی۔

× فارسی شعری روایات میں «زاهِد» کو عُموماً اِستِہزاآمیز طور پر «زاهدِ خُشک» پُکارا جاتا ہے۔ اِس لیے «زاهِد» کے ساتھ «گِیاہِ خُشک» کا قِیاس گیا گیا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
فارسی-تُرکی شعری روایات میں «غُنچے» کو دِل‌گیر و دِل‌گرفتہ و ملول و محزون تصوُّر کیا جاتا ہے، اور سمجھا جاتا ہے کہ اِسی دل‌گرفتگی کے باعث «غُنچہ» خود میں لِپٹا ہوا ہے اور ناشِکُفتہ ہے۔۔۔ اب مُلاحظہ کیجیے کہ ایک «کشمیری» شاعر «میرزا داراب بیگ جویا کشمیری» اپنے مُلک اور اپنے وطن «کشمیر» کی سِتائش میں کہہ رہے ہیں کہ وہ اِک ایسا فرح‌ناک و نُزہت‌بخش گُلزار ہے کہ اُس میں کوئی غُنچہ بھی دل‌گیر و غمگین نہیں ہے:

تعالی لله زهی گُلزارِ کشمیر
که در وَی غُنچه‌ای هم نیست ‌دل‌گیر
(میرز داراب بیگ جویا کشمیری)


سُبحان اللہ! زہے گُلزارِ کشمیر!۔۔۔ کہ اُس میں کوئی غُنچہ بھی دل‌گیر نہیں ہے۔۔

=============

پس نوِشت: «کشمیر» وہ کِشوَر تھا کہ جس میں کوئی غُنچہ بھی دل‌گیر نہیں ہوتا تھا، لیکن اِس زمانے میں «کشمیر» اور «کشمیریوں» کے غاصِب و سِتم‌کار دُشمن نے ہر ایک کشمیری شخص کے دل کو ملول و محزون و غمناک کر رکھا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
عشق را جایی رسان با دوست که از هر مُویِ تو
جلوه‌هایِ طلعتِ معشوق گردد آشکار
(قاآنی شیرازی)


محبوب کے ساتھ [اپنے] عشق کو اِس مقام پر اور اِس حد تک پہنچا دو کہ تمہارے [بدن کے] ہر بال سے معشوق کے چہرہ و دیدار کے جلوے آشکار ہوں!
 

حسان خان

لائبریرین
مردُمِ لاہور کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ بیرونِ شہر سے آئے مُسافروں کو صحیح پتا نہیں بتاتے۔۔۔ شاید لاہوریوں نے تین چار صدیوں قبل ایک «کشمیری» شاعر «میرزا داراب بیگ جویا کشمیری» کے ساتھ بھی کچھ ایسی ہی روِش اختیار کی ہو گی جس کے باعث ناراض ہو کر اُن کے قلم سے مردُمِ لاہور کی ہَجو میں مندرجۂ ذیل سطریں نِکلیں:

از مردُمِ لاهور مجو صِدق و صفا
باشد دِلشان مایلِ تلبیس و رِیا
(میرزا داراب بیگ جویا کشمیری)


مردُمِ لاہور سے صِدق و صفا مت تلاش کرو۔۔۔ اُن کے دل فِریب‌گری و رِیا کے جانب مائل رہتے ہیں۔۔۔
 

حسان خان

لائبریرین
«کشمیری» شاعر «میرزا داراب بیگ جویا کشمیری» مذہباً اِثناعشَری اِمامی شیعی تھے، اور اِمامی شیعیان تاریخی طور پر تصوُّف اور صُوفیوں کے مُخالف رہے ہیں۔ لہٰذا شاعر خود کی ایک رُباعی میں صُوفیوں اور شیعی صُوفیوں کی نکوہِش (مذمّت) کرتے ہوئے کہتے ہیں:

پهلو تهی از صوفیِ خر باید کرد
یعنی اندیشه از خطر باید کرد
از شیعهٔ صوفی‌ست سگِ سُنّی بِه
کز دُشمنِ خانَگی حذر باید کرد
(میرزا داراب بیگ جویا کشمیری)


صُوفیِ خر سے [اپنا] پہلو تہی کر لینا لازم ہے۔۔۔ یعنی خطر کے بارے میں غور و فِکر کرنا لازم ہے۔۔۔ سگِ سُنّی [بھی] صوفی شیعہ سے بہتر ہے۔۔۔ کیونکہ خانَگی دُشمن (گھر کا پَلا دُشمن) سے پرہیز و اِجتِناب و احتیاط کرنا لازم ہے!
 

حسان خان

لائبریرین
روایات کے مُطابق «هِند بِنت عُتبه» نے حضرتِ «حمزه بن عبدالمُطّلِب» کا جِگر کھایا تھا، جس کے باعث وہ شیعوں میں «هِندِ جِگرخوار» کے لقب سے مشہور ہے۔ چونکہ اُس زن کے اور «سرزمینِ ہند» کے درمیان نام کا اِشتِراک ہے، لہٰذا کئی شیعی فارسی شاعروں نے «سرزمینِ ہِند» کی ہَجو و مذمّت کرتے ہوئے اُس دِیار کو بھی «هِندِ جِگرخوار» کہہ کر یاد کیا ہے، اور اِس سے اُن کا مقصود یہ تھا کہ «دیارِ ہِند» ظالِم و سِتم‌گر و بدبخت و مایۂ ناراحتی ہے۔ مُلکِ «کشمیر» کے ایک «کشمیری» شاعر «میرزا داراب بیگ جویا کشمیری» ایک بیت میں «دِیارِ ہِند» کی نکوہِش (مذمّت) میں کہتے ہیں:

در سوادِ هِند دست از لذّتِ دُنیا بِشُوی
جُز جِگرخواری نباشد نعمتی بر خوانِ هِند
(میرزا داراب بیگ جویا کشمیری)


«سرزمینِ ہِند» میں لذّتِ دُنیا سے دست دھو لو (یعنی لذّتِ دُنیا سے بطورِ کُلّی دُور ہو جاؤ اور اُس کا خیال بھی بُھول جاؤ) کیونکہ دسترخوانِ «ہِند» پر جِگرخواری کے بجُز کوئی نعمت [موجود] نہیں ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
کِشوَرِ «کشمیر» کے ایک «کشمیری» شاعر «میرزا داراب بیگ جویا کشمیری» نے اپنے مُلک اور اپنے وطن «کشمیر» کی سِتائش میں لِکھا ہے کہ وہاں لطافت و رعنائی کو مُجَسّم شکل میں دیکھا جا سکتا ہے:

درین گُلشن که باد آباد جاوید
لطافت را مُجسّم می‌توان دید
(میرزا داراب بیگ جویا کشمیری)


اِس کُلشنِ [کشمیر] میں - کہ [خُدا کرے کہ] یہ ہمیشہ و ابَداً آباد رہے! - لطافت کو مُجَسّم دیکھا جا سکتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
کېلتورسه یوز بلانی اۉشه‌ل بې‌وفا من‌گه
کېلسون، اگر یوزوم‌نی اېوورسه‌م، بلا من‌گه

(ظهیرالدین محمد بابُر)

اگر وہ بے‌وفا [محبوب] مجھ پر صد بلائیں لائے، [تو بھی] اگر میں خود کے چہرے کو [اُس سے] موڑ لوں تو مجھ پر بلا نازِل ہو جائے!

پادشاہِ غازی «ظهیرالدین محمد بابُر» کی مندرجۂ بالا تُرکی بیت کا منظوم فارسی ترجمہ:

گر صد بلا بِیاورَد آن بی‌وفا به من
آید، چو رُوکشَم من از او، صد بلا به من

(مترجم: شفیقه یارقین)

اگر وہ بے‌وفا [محبوب] مجھ پر صد بلائیں لائے، [تو بھی] جب/اگر میں [خود کے] چہرے کو اُس سے کھینچ لوں تو مجھ پر صد بلائیں نازِل ہو جائیں!

(یعنی وہ اِس بیت میں کہہ رہے ہیں کہ وہ عشق میں اِس قدر زیادہ پائدار ہیں کہ اگر یار صد بلائیں اُن پر نازل کرے، تو بھی وہ اُس سے رُخ نہیں پلٹائیں گے اور اِس دعوے پر وہ قسم بھی کھا رہے ہیں اگر اُنہوں نے کسی وقت ایسا کیا تو اُن پر بلا نازل ہو جائے!)
 

حسان خان

لائبریرین
بِیا ای باغ و ای گُلشن بِیا ای سرو و ای سوسن
برایِ کوریِ دُشمن بِگو ما را اغاپو سی

(مولانا جلال‌الدین رومی)

آ جاؤ، اے [میرے] باغ و اے میرے گُلشن! آ جاؤ، اے [میرے] درختِ سرْو و گُلِ سوسن!۔۔۔ [اور] دُشمن کی خواہش سے بے‌اِعتِنائی و مُخالفت کرتے ہوئے [اور اُس کی جلانے کے لیے] ہم سے کہو "میں تم سے محبّت کرتا ہوں"۔۔۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
(رباعی)
ای آن که چو آفتاب فرد است بِیا
بی‌ رُویِ تو باغ و برگ زرد است بِیا
عالَم بی تو غُبار و گَرد است بِیا
این مجلسِ عیش بی تو سرد است بِیا

(مولانا جلا‌ل‌الدین رومی)

اے وہ کہ جو خورشید کی مانند یگانہ و ‌بے‌نظیر ہے، آ‌جاؤ!۔۔۔ تمہارے چہرے کے بغیر باغ و برگ زرد [و پژمُردہ] ہے، آ جاؤ!۔۔۔ عالَم تمہارے بغیر غُبار و گَرد ہے، آ جاؤ!۔۔۔ یہ مجلسِ عَیش تمہارے بغیر سَرد و بے‌رَونق ہے، آ جاؤ!
 

حسان خان

لائبریرین
خواه با اظهری و خواه به بیگانه نِشین
من همین شرمِ تُرا بر تو نگهبان کردم

(اظهری)

[اے یار!] خواہ تم «اظہری» کے ساتھ، یا خواہ تم [کِسی] بیگانے کے ساتھ بیٹھو۔۔۔ میں نے تمہاری اِسی شرم و حیا کو تُم پر نگہبان [اور تمہارا مُحافِظ] کر دیا [ہے]!
 

حسان خان

لائبریرین
نیست چون آیینه جُز ما در جهان کس سینه‌صاف
در حقِ ما ساده‌لَوحان بدگُمانی مُشکِل است

(مُحسِن فانی کشمیری)

[اِس] جہان میں آئینے جیسا سینہ‌صاف شخص ہمارے بجُز کوئی نہیں ہے۔۔۔ ہم سادہ‌لَوحوں کے بارے میں بدگُمانی [کرنا] مُشکِل ہے۔۔۔

× «سادہ‌لَوح» کا لفظی معنی یہ ہے: وہ شخص جس کی لَوح صاف و خالی ہو۔
 

حسان خان

لائبریرین
«خُمار» نشہ و مستی کو نہیں کہتے، بلکہ شراب کا نشہ و مستی زائل ہو جانے کے بعد لاحق ہونے والی کیفیتِ سر درد و کسالت کو کہتے ہیں، جس میں شراب کی دوبارہ طلب و خواہش محسوس ہوتی ہے۔۔۔ ایک اور چیز شاید آپ کو معلوم ہو کہ گُذشتہ ادوار میں اسلامی مملکتوں میں مَیخانے جُمعے کے احترام میں شبِ جُمعہ کو بند رہتے تھے، جس کے باعث فارسی-تُرکی خَمریہ شاعری میں کئی بار اِس شب کے لیے ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا ہے۔ مُلکِ «کشمیر» کے ایک «کشمیری» شاعر «میرزا داراب بیگ جویا کشمیری» اپنی ایک بیت میں کہتے ہیں:

طاقتِ یک دم خُمارم نیست یا پیرِ مُغان
از قطارِ هفته بیرون کن شبِ آدینه را

(میرزا داراب بیگ جویا کشمیری)

مجھے ایک لمحہ [بھی] خُمار کی طاقت نہیں ہے۔۔۔ اے پِیرِ مُغاں! [خُدارا!] شبِ جُمعہ کو ہفتے کی قطار سے خارِج کر دو! (یعنی ایسا کر دو کہ شبِ جُمعہ ہفتے میں نہ آئے!)

× «جُمعه» کو فارسی میں «آدینه» بھی کہتے ہیں۔

× ایک مأخذ میں مصرعِ اول کا یہ متن نظر آیا ہے:

طاقتِ یک دم خُمارم نیست با پیرِ مُغان
ترجمہ: مجھے پِیرِ مُغان کے ساتھ ایک لمحہ [بھی] خُمار کی طاقت نہیں ہے۔۔۔
 

حسان خان

لائبریرین
ایک «کشمیری» شاعر «میرزا داراب بیگ جویا کشمیری» اپنے وطن «کشمیر» کی اور اُس میں وُفورِ گُل و گِیاہ کی سِتائش میں کہتے ہیں:

فلک دیوانهٔ جوشِ بهارش
در آتش نعلِ مه از لاله‌زارش

(میرزا داراب بیگ جویا کشمیری)

فلک اُس کی بہار کے جوش کا دیوانہ ہے۔۔۔ اُس کے لالہ‌زار سے ماہ کی نعل آتش میں ہے۔ (یعنی اُس کے لالہ‌زار نے ماہ کو عشقِ گُلشنِ «کشمیر» میں مُضطَرِب و بے‌قرار کر دیا ہے۔)
 
Top