حافظ رسید موسمِ گلُ معہِ فت مخوان
دریاب نقدِ عمر زچون و چرامپرس
﴿اے حافظ پھول کا موسم آگیا معرفت کے قصے نا سنا۔ زندگی کا نقد حاصل کرلے اور چوں و چراں کے متعلق نا پوچھ﴾
 
درد دفترِ طبیب ِ خرد بابِ عشق نیست
اے دل بدرد خوکن و نامِ دوا مپرس

عقل کے طبیب کی کتاب میں ، عشق کا باب نہیں رہے۔ اے دل، درد کی عادت ڈال، اور دوا کا نام نا پوچھ
حافظ سعدی شیرازی
 

حسان خان

لائبریرین
فخرِ آذربائجان حضرت فضولی کے ترکی دیوان کا اختتامیہ قطعہ:
چون خاکِ کربلاست فضولی مقامِ من
نظمم به هر کجا که رسد حرمتش رواست
درّ نیست، سیم نیست، گهر نیست، لعل نیست
خاک است شعرِ بندہ، ولی خاکِ کربلاست

(محمد فضولی بغدادی)

اے فضولی! چونکہ خاکِ کربلا میرا مقام ہے (یعنی چونکہ میں کربلا میں مقیم ہوں یا یہ کہ میں منزلت میں خاکِ کربلا کے برابر ہوں)، اس لیے میری نظم جہاں بھی پہنچے اُس کی حرمت روا ہے۔ اس ناچیز بندے کے اشعار موتی نہیں ہیں، سیم نہیں ہیں، گہر و لعل نہیں ہیں، بلکہ صرف خاک ہیں، لیکن وہ کوئی عام خاک نہیں، بلکہ کربلا کی خاک ہیں۔

حضرت فضولی علیہ الرحمہ کی ایک لطیف فارسی رباعی ملاحظہ ہو:
روزی که ز هر چه هست آثار نبود
وز خوابِ عدم زمانه بیدار نبود
نورم شررِ نار و گلم خار نداشت
من بودم و یار بود و اغیار نبود

(محمد فضولی بغدادی)

اُن دنوں جب کسی بھی طرح کی ہستی کا آثار نہیں تھا، جب خوابِ عدم سے زمانہ بیدار نہیں ہوا تھا، جب میرا نور شررِ نار اور میرا پھول خار سے محفوظ تھا، (اُن دنوں صرف) میں تھا، یار تھا اور غیر کوئی نہیں تھا۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
اہلِ تقلید ندارند ثباتے در ذات
صدقِ ایں واقعہ از سایۂ خود کن تحقیق
(فضولی)
اہلِ تقلید بالذات ہر قسم کے ثبات و استقامت سے تہی ہوتے ہیں۔ اس بات کی سچائی کا نمونہ اپنے سائے میں دیکھو۔

سینہ ام را سوخت دل وز نالہ ام پیداست ایں
بیشتر دارد فغاں ہر گہ کہ آتش دید دف
(فضولی)
میرے سینے کو دل نے جلا دیا ہے، اور میرے نالوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جب بھی دف کو آگ دکھائی جائے تو وہ زیادہ فغاں کرتا ہے۔ سینے کو دف اور دل کو آگ سے تشبیہ دی ہے۔ پہلے میرے خیال سے دف کی آواز بہتر بنانے کے لیے اُسے آگ کے اوپر گھمایا جاتا تھا۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
بر ما ہمہ عیب ہا بگفتند
یا قوم الی متی و حتام؟
سعدی
جو عیب ہو ہم پہ رکھ دیاجاتا ہے۔
اے لوگو آخر ایسا کب تک اور کہاں تک ہوتا رہے گا ؟
 

سید عاطف علی

لائبریرین
من در قدم تو خاک بادم
باشد کہ تو بر سرم نہی گام
میں تیرے قدموں کی خاک بن جاؤں۔
ایسا ہو جائے کہ تو میرے سر پہ قدم رکھ دے
 

حسان خان

لائبریرین
بہار آمد، صدائے بر نمی آید ز بلبل ہا
مگر امسال رنگِ دلربائی نیست در گل ہا
(فضولی)

بہار تو آ گئی، لیکن بلبلوں کی کوئی صدا بلند نہیں ہوتی، شاید اس سال پھولوں میں رنگِ دلربائی مفقود ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
فضولی (رح) کے چند متفرق فارسی اشعار:

عاشقم، جز عاشقی کارے نمی آید ز من
ہست تقویٰ کارِ دشوارے، نمی آید ز من
میں عاشق ہوں، مجھ سے عاشقی کے علاوہ کوئی دوسرا کام نہیں ہوتا۔ تقویٰ ایک مشکل کام ہے، جو مجھ سے نہیں ہو پاتا۔

من نمی گویم کہ ذوقے نیست در قیدِ جنوں
عاقلم، بے ہودہ گفتارے نمی آید ز من
میں نہیں کہتا کہ قیدِ جنوں میں کسی طرح کا ذوق نہیں ہے؛ میں تو عاقل ہوں، ایسی بے ہودہ باتیں میں نہیں کرتا۔

جدا بودن ز یار و سوختن با داغِ ہجرانش
بسے خوشتر کہ روزِ وصل دیدن با رقیبانش
یار سے جدا ہونا اور اس کے ہجر میں جلنا اس سے کہیں خوش تر ہے کہ روزِ وصل یار کو رقیبوں کے ساتھ دیکھا جائے۔

نبیند سوئے من تا در نیابم راحتِ مردن
چوں می داند نخواہد بُرد جاں از چشمِ فتانش
وہ میری طرف نہیں دیکھتا تاکہ میں موت کی راحت دریافت نہ کر سکوں؛ کیونکہ اُسے بھی معلوم ہے کہ میری جان اُس کی فتنہ جو آنکھوں کو دیکھنے کے بعد سلامت نہیں رہے گی۔

نہ من تنہا نہادم سر بپائے او، سپردم جاں
ہوائے عشقِ او در ہر کہ ہست اینست پایانش
صرف میں ہی تنہا نہیں جو جس نے اُس کے قدموں پر سر رکھا ہے یا اُسے اپنی جان سپرد کی ہے بلکہ جس کسی کے دل میں بھی اُس کے عشق کی تڑپ ہے اُس کا یہی اختتام ہوا ہے۔

عاشقی رونق زِ اطوارِ منِ حیراں گرفت
عشق از فرہاد صورت یافت، از من جاں گرفت
عاشقی کو مجھ جیسے حیران و پریشان عاشق کی بدولت ہی رونق ملی ہے؛ عشق نے قالب تو فرہاد سے پایا تھا، لیکن جان مجھ سے پائی ہے۔

(فضولی)
 

حسان خان

لائبریرین
ما ترکِ دیدنِ رخِ زیبا نمی کنیم
کارے کہ ہیچ کس نکند، ما نمی کنیم
ہم رِخ زیبا کی رویت ترک نہیں کریں گے؛ وہ کام جو کوئی نہیں کرتا، وہ ہم بھی نہیں کریں گے۔

تشبیہ کردہ ایم ببالاش سرو را
عمریست سر ز شرم ببالا نمی کنیم
ایک بار ہم نے اُس کے قد کی تشبیہ سرو سے کر دی تھی؛ اب ایک عمر ہو گئی ہے کہ اس باعث شرم کے مارے ہم اپنا سر یار کے آگے اونچا نہیں کرتے۔

دنیا طلب نہ ایم کہ خواہیم ملک و مال
از دوست غیرِ دوست تمنا نمی کنیم
ہم دنیا طلب نہیں ہیں کہ ملک و مال کی خواہش کریں؛ ہم اپنے دوست سے دوست کے علاوہ کسی چیز کی تمنا نہیں کرتے۔

رندی و مے کشیست فضولی شعارِ ما
دعویٰ نمی کنیم کہ اینہا نمی کنیم
اے فضولی! ہمارا شعار رندی اور مے کشی ہے؛ ہم منافقت پر مبنی دعویٰ نہیں کرتے کہ ہم یہ سب چیزیں نہیں کرتے۔

(فضولی)
 

حسان خان

لائبریرین
فضولی! رہگذارِ عشق بازی صد خطر دارد
شروعِ ایں طریقِ صعب را باید تأمّل ہا
(فضولی)
اے فضولی! عاشقی کے راستے پر طرح طرح کے ٰخطرات موجود ہیں؛ اس لیے اس دشوار راستے کو شروع کرنے سے پہلے لازمی ہے کہ خوب غور و فکر کر لیا جائے۔
 

حسان خان

لائبریرین
سرو را ہمچو قدت شیوۂ رعنائی نیست
ایں قدر ہست کہ او مثلِ تو ہرجائی نیست
(فضولی)
سرو کے پاس تیری طرح کی طرزِ رعنائی تو نہیں؛ لیکن کم سے کم اتنا تو ہے کہ وہ تیری طرح ہرجائی نہیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
فلک از نسبتِ آں، سجدہ بہ آدم می کرد
کہ گِلِ قالبش از خاکِ سر کوئے تو بُود
درویش ناصر بخاری
فلک (سب جہانوں) نے اس نسبت کی وجہ سے آدم کو سجدہ کیا کہ آدم کے قالب کی مٹی، تیرے کوچے کی خاک تھی۔
 

حسان خان

لائبریرین
نوبهار و می و معشوقه و جام است اینجا
زهد و پرهیز و ورع را چه مقام است اینجا
(خوشحال خان خٹک)
بہار کا موسم، شراب، معشوقہ اور جام سب یہاں مہیا ہیں، (اب بتاؤ) کہ اِس جگہ پر زہد، پرہیز اور تقویٰ کا کیا کام ہے؟
 

محمد وارث

لائبریرین
نوبهار و می و معشوقه و جام است اینجا
زهد و پرهیز و ورع را چه مقام است اینجا
(خوشحال خان خٹک)
بہار کا موسم، شراب، معشوقہ اور جام سب یہاں مہیا ہیں، (اب بتاؤ) کہ اِس جگہ پر زہد، پرہیز اور تقویٰ کا کیا کام ہے؟

:):)

ساقی و جامِ مے و گوشۂ دیرست اینجا
للہ الحمد کہ احوال بخیرست اینجا

فیضی

ساقی ہے، مے کا جام ہے اور بتخانے کا گوشہ ہے، اللہ کا شکر ہے کہ یہاں سب کچھ خیریت سے ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
قصہ کوتاہ کہ در مذہبِ ما اے صوفی
غیرِ مے ہر چہ بُوَد جملہ حرام است اینجا
(خوشحال خان خٹک)
اے صوفی! قصہ مختصر کہ ہمارے مذہب میں مے کے علاوہ جو کچھ بھی ہے وہ یہاں حرام ہے۔ :) :)
 

حسان خان

لائبریرین
شبِ ہجراں خیالت شمعِ محنت خانۂ من شد
دلم را صد چراغ از پرتوِ آں شمع روشن شد
ہجر کی رات تیری یاد میرے آفت خانے کی شمع بن گئی جس کے پرتو سے میرے دل میں سینکڑوں چراغ روشن ہو گئے۔

نقاب افکندہ از رخ، آمد آں گل جانبِ گلشن
بہارِ طلعتِ او آفتِ گل ہائے گلشن شد
وہ پھول اپنا نقاب اٹھا کر گلشن کی جانب آیا تھا، اُس کے چہرے کی بہار گلشن کے پھولوں کے لیے آفت بن گئی۔

(فضولی)
 

سید عاطف علی

لائبریرین

سنگ بےقیمت اگر کاسہء زریں بشکست
قیمت سنگ نیفزاید ۔۔و۔۔ زر کم نشود


بے قیمت پتھرسے اگر سنہرا کاسہ ٹوٹ جائے تو نہ پتھر کی قیمت بڑھتی ہے نا ہی زر کی قیمت کم ہوتی ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
نواب مصطفیٰ خان شیفتہ 'حسرتی' کے فارسی دیوان کا سب سے پہلا شعر:
لَعَمری یا نسیم الصبح زُر سلمی و قبّلہا
کہ غیر از شوقِ دیدارش ہوائے نیست در دلہا
(حسرتی)

تجھے میری عمر کی قسم اے بادِ صبح ۔۔ سلمیٰ (یعنی معشوق) کی زیارت کو جا اور اس کا بوسہ لے؛کہ اُس کے دیدار کے شوق کے سوا دلوں میں کوئی خواہش نہیں ہے۔ (عربی مصرعے کا ترجمہ محمود احمد غزنوی بھائی کی وساطت سے ہوا ہے۔)

نہ بیمِ محتسب نہ خوفِ قاضی نہ غمِ فردا
نمی دانم کہ از مے چیست لذت گبر و ترسا را
(حسرتی)
 

محمد وارث

لائبریرین
حدیثِ خُلد چو گویند با منِ مجنوں
گماں برم کہ مگر گوشہٴ ز صحرا ہست

مولانا شبلی نعمانی

مجھ مجنوں کو جب جنت کی باتیں بتائی جاتی ہیں تو گمان کرتا ہوں کہ وہ بھی صحرا ہی کا ایک گوشہ ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
چه گویم ای که می‌پرسی ز حال روزگار من
که ماضی رفت و حال این است و مستقبل نمی‌دانم
(سلمان ساوجی)
اے کہ جو مجھ سے میرا حالِ روزگار پوچھ رہے ہو، میں جواب میں کیا کہوں؛ کیونکہ ماضی تو گیا، حال یہ ہے اور مستقبل کے بارے میں مَیں کچھ نہیں جانتا۔

مرا گویند عاقل گرد و ترک عشق کن سلمان
من آن کس را که عاشق نیست خود عاقل نمی‌دانم
(سلمان ساوجی)
مجھ سے لوگ کہتے ہیں کہ اے سلمان! عاقل بنو، اور عشق کو ترک کر دو؛ جبکہ میں اُس شخص کو عاقل ہی نہیں مانتا جو عاشق نہ ہو۔

اگر دوری ز من در آرزویت زار می‌میرم
وگر پیش منی از لذت دیدار می‌میرم
(محتشم کاشانی)
اگر تم مجھ سے دور ہو تو میں تمہاری آرزو میں روتے روتے مر جاؤں گا؛ اور اگر تم میرے سامنے آؤ تو میں لذتِ دیدار سے مر جاؤں گا۔
 
Top