جناب عالی محمد وارث صاحبگاہے گاہے باز خواں ایں دفترِ پارینہ را
تازہ خواہی داشتن گر داغ ہائے سینہ را
(شاعر: نا معلوم)
کبھی کبھی یہ پرانے قصے پھر سے پڑھ لیا کر، اگر تُو چاہتا ہے کہ تیرے سینے کے داغ تازہ رہیں۔
۔
تن پیدا کن از مشتِ غبارےتن محکم تر از سنگیں حصارےدرون اُو دلِ درد آشنائےچوں جوئے در کہسارےاقبال
جسم کو مٹھی بھر خاک سے پیدا فرمایا۔۔۔ جسم جو پتھریلی فصیلوں سے مضبوط تر ہے
اُس میں درد سے واقف دل رکھ دیا۔۔۔ ۔ جیسے کسی پہاڑ میں نرمی سے بہتی ہوئی ندی
بہت خوبصورت اشعار ہیں اشفاق احمد صاحب تھوڑی سے کتابت کی درستگی کی گنجائش لگتی ہے۔
تنے پیدا کن از مشتِ غبارےتنے محکم تر از سنگیں حصارےدرون اُو دلِ درد آشنائےچوں جوئے در کنارِکہسارے
فاتح بھائی۔۔۔ شعر کے دوسرے مصرے کا ترجمہ کرتے ہوئے فارسی کا ایک لفظ آپ کی توجہ حاصل نہ کر سکا۔ اور وہ ہے باز۔ جس کے معنی اس مصرے میں ہیں ۔۔دوبارہ یا ایک مرتبہ پھر ۔انار کلی اور شہزادہ سلیم کی محبت کے متعلق متضاد آرا پائی جاتی ہیں اور کچھ مورخین کا خیال ہے کہ اس کا سرے سے کوئی وجود ہی نہ تھا لیکن اس محبت کے وجود کے معترفین نے اس کے ثبوت میں شواہد بھی پیش کیے ہیں اور اسی قسم کا ایک ثبوت یہ شعر بھی ہے جس کے متعلق قیاس ہے کہ یہ شہزادہ سلیم کا شعر ہے جو اس نے انار کلی کی قبر پر لکھوایا تھا:
تا قیامت شکر گویم کردگارِ خویش راآہ گر من باز بینم روٕے یارِ خویش را
میں قیامت تک خدا کا شکر ادا کرتا
اگر میں اپنے محبوب کے چہرہ کا دیدار کر سکتا