محمد وارث

لائبریرین
نیستم عاشق بظاہر لیک می کاہد دلم
عمر بگزشت و نمی دانم چہ می خواہد دلم

میر تقی میر

بظاہر میں عاشق تو نہیں ہوں لیکن میرا دل کسی کی تلاش ہی میں ہے، عمر گزر گئی لیکن یہ علم نہ ہوا کہ دل آخر چاہتا کیا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
نیستم عاشق بظاہر لیک می کاہد دلم
عمر بگزشت و نمی دانم چہ می خواہد دلم

میر تقی میر

بظاہر میں عاشق تو نہیں ہوں لیکن میرا دل کسی کی تلاش ہی میں ہے، عمر گزر گئی لیکن یہ علم نہ ہوا کہ دل آخر چاہتا کیا ہے۔

وارث بھائی، آپ کے فیس بک پیغام پر راجیو چکرورتی صاحب نے کاہ مضارع کے مصدر کے متعلق استفسار کیا تھا۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ شاید کاہیدن بمعنی لاغر ہونا، ضعیف ہونا، کم ہونا کا مضارع ہے۔ جبکہ کاویدن کا مضارع میرے خیال سے کاو ہے۔ اسے ایک نظر دیکھ لیجیے گا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
وارث بھائی، آپ کے فیس بک پیغام پر راجیو چکرورتی صاحب نے کاہ مضارع کے مصدر کے متعلق استفسار کیا تھا۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ شاید کاہیدن بمعنی لاغر ہونا، ضعیف ہونا، کم ہونا کا مضارع ہے۔ جبکہ کاویدن کا مضارع میرے خیال سے کاو ہے۔ اسے ایک نظر دیکھ لیجیے گا۔

شکریہ حسان صاحب، اور یہ بھی بہت ممکن ہے کہ شعر میں کاہد کی جگہ کاود ہو، جو کاویدن ہی سے ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ہر خم و پیچے کہ شد از تارِ زلفِ یار شد
دام شد، زنجیر شد، تسبیح شد، زنّار شد

شاہزادہ دارا شکوہ قادری

ہر خم و پیچ کہ جو ہے وہ تارِ زلف یار ہی سے ہے، چاہے دام ہو، زنجیر ہو، تسبیح ہو کہ زنار ہو۔
 

حسان خان

لائبریرین
منشی چندربھان برہمن کشمیری شاہزادہ دارا شکوہ کے بطور منشی ملازم تھے۔ ایک دن شاہزادے نے منشی صاحب سے کہا کہ اپنا کوئی شعر سناؤ تو منشی جی نے یہ شعر پڑھا:
مرا دلیست به کفر آشنا که چندین بار
به کعبه بردم و بازش برهمن آوردم
(منشی چندربهان برهمن کشمیری)
میرے پاس ایسا کفر سے آشنا دل ہے کہ اُسے کئی بار کعبہ لے گیا، لیکن پھر بھی برہمن ہی واپس لایا۔

جواب میں شہزادے نے کہا کہ شاید شیخ سعدی نے یہ شعر تمہارے بارے میں ہی فرمایا تھا:
خر عیسیٰ گرش به مکه برند
چون بیاید هنوز خر باشد
(شیخ سعدی)
اگر حضرت عیسیٰ کے گدھے کو بھی مکے لے جائیں تو وہ واپسی پر گدھے کا گدھا ہی رہے گا۔

(بحوالۂ تذکرۂ زعفران زارِ کشمیر)
 

حسان خان

لائبریرین
ہمچو فرہاد بُوَد کوہ کنی پیشۂ ما
کوہِ ما سینۂ ما ناخنِ ما تیشۂ ما
(میر حسن علی خان تالپور متخلص بہ حسین)

فرہاد کی طرح ہمارا پیشہ بھی کوہ کنی (یعنی پہاڑ کھودنا) ہے؛ ہمارا پہاڑ ہمارا سینہ جبکہ ہمارا تیشہ ہمارے ناخن ہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
اگر فقیه نصیحت کند که عشق مباز
پیاله‌ای بدهش گو دماغ را تر کن
(حافظ شیرازی)

اگر فقیہ یہ نصیحت کرے کہ عشق بازی مت کرو تو اُسے (شراب کا) ایک پیالہ پکڑاؤ اور کہو کہ اپنا دماغ اِس سے تر کر لے یعنی اپنے خشک زہد کو ترک کر دے۔
 

حسان خان

لائبریرین
دی، خراماں در چمن، ناگہ گذشتی، لالہ گفت:
"نیست مثلِ آں صنوبر در ہمہ بستانِ ما"
(امیر خسرو)

کل تم ناز سے چلتے ہوئے اچانک چمن سے گذرے تھے، (تمہارا یوں گزرنا دیکھ کر) لالہ نے کہا کہ اِس صنوبر قد جیسا ہمارے پورے گلستاں میں کوئی نہیں ہے۔
 
آدمیت نہ بہ نطق و نہ بہ ریش وہ نہ بہ جاں
طوطیاں نطق، بزاں ریش، خراں جاں دارد
آدمیت نہ تو بولنے سے، نہ داڑھی سے، نہ ہی صحتمندی سے ہے
بولتے تو طوطے بھی ہیں، داڑھی تو بکروں کی بھی ہوتی ہے اور جسم تو گدھوں کا بھی توانا ہوتا ہے۔​
 

محمد وارث

لائبریرین
رُباعی

در معرکہٴ عشق، ستیزے دگر است
فتحے دگر اینجا و گریزے دگر است
فریاد و فغاں و گریہ و نالہ و آہ
اینہا ہوس است، عشق چیزے دگر است

والہ داغستانی

معرکہٴ عشق میں جنگ و جدل کچھ اور چیز ہے، یہاں فتح کچھ اور ہے اور فرار و شکست کچھ اور، فریاد و فغاں و گریہ و نالہ و آہ، یہ سب تو ہوس ہے، عشق کچھ اور ہی چیز ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
گفتمش چند بُوَد حُسنِ تو پنہاں، گفتہ
حُسن پیداست ولے دیدۂ بینندہ کراست
(حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری)

میں نے اُس سے کہا کہ کب تک تمہارا حُسن پنہاں رہے گا؟ اُس نے کہا کہ میرا حُسن تو ہویدا ہے لیکن دیکھنے والی آنکھ کس کے پاس ہے؟
 

حسان خان

لائبریرین
در گنہ کز جانبِ ما بود تقصیرے نرفت
چوں در آمرزش کہ کار اوست کوتاہی رود
(خصالی ہروی)

جب ہماری جانب سے گناہوں میں کسی قسم کی تقصیر نہیں کی گئی، تو کیسے ممکن ہے کہ وہ مغفرت میں، جو کہ اُس کا کام ہے، کوئی کوتاہی برتے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
اگر روزے کفِ پایت ببوسم
بود بر ہر دو عالم دست ما را
۔۔حکیم سنائی۔۔
اگر کبھی ہمیں تیری ًپا ً بوسی ﴿قدم بوسی ﴾ نصیب ہو جا ئے
تو ہمارا ًدست ً ﴿ ہاتھ ﴾ ہر دو عالم تک رسا ہو جائے۔
دست و پا کی ترکیب لا جواب ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
رُباعی

در مجلسِ عشّاق، قرارے دگر است
ویں بادہٴ عشق را، خمارے دگر است
آں علم کہ در مدرسہ حاصل گردد
کارے دگر است و عشق کارے دگر است

مولانا رُومی

عشاق کی مجلس میں قرار کچھ اور چیز ہے اور عشق کی شراب کا خمار کچھ اور ہی ہے۔ وہ علم کہ جو مدرسوں میں حاصل ہوتا ہے وہ کچھ اور کام ہے اور عشق کچھ اور ہی کام ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
بیماریِ من چوں سببِ پرسشِ او بود
می میرم از ایں غم کہ چرا بہترم امروز
(میرزا محمد تبریزی امینؔ)

چونکہ میری بیماری اس بات کا سبب تھی کہ وہ میری احوال پرسی کرے، لہذا میں اس غم میں مرا جا رہا ہوں کہ آج کیوں بہتر ہوں۔

(بحوالۂ دانشمندانِ آذربایجان)
 

حسان خان

لائبریرین
ستائش کنم ایزدِ پاک را
کہ گویا و بینا کند خاک را
(فردوسی)

میں اُس خدائے پاک کی حمد و ثنا کرتا ہوں جو خاک کو بولنے والے اور دیکھنے والے انسان میں تبدیل کر دیتا ہے۔

توانا بوَد ہر کہ دانا بوَد
زِ دانش دلِ پیر برنا بوَد
(فردوسی)

(اِس دنیا میں) توانا وہی ہے جو دانائی رکھتا ہے؛ اور علم و دانش کے سبب سے بوڑھے دل بھی جوان ہو جاتے ہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
نارِ دوزخ گرچہ سوزد پوست ہائے عاصیاں
آتشِ ہجرانش مغزِ استخوانِ من بسوخت
(حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری)

دوزخ کی آگ اگرچہ گناہگاروں کی کھال جلا دیتی ہے، لیکن ہجرِ یار کی آگ نے تو میرے ہڈیوں کے گودے تک کو جلا ڈالا ہے۔ قرآن شریف کے مطابق دوزخ میں دوزخیوں کی کھال بار بار جلائی جائے گی۔
 

حسان خان

لائبریرین
بشکند دستے کہ خم در گردنِ یارے نشد
کور بہ چشمے کہ لذت گیرِ دیدارے نشد
(زیب النساء بیگم)

وہ ہاتھ ٹوٹ جائے جو کسی یار کی گردن پر خم نہ ہوا ہو؛ وہ آنکھ اندھی ہو جائے جو کسی کے دیدار سے لذت یاب نہ ہوئی ہو۔
 
اختیاری نیست بدنامی ما
ضَلَّنی فِی العِشقِ مَن یَھدی السَّبِیل

یہ جو ہماری بدنامی دیکھتے ہو یہ اختیاری نہیں ہے۔ مجھے عشق میں اسی نے بدنام کیا ہے جو راستہ دکھانے والا ہے-

حافظ شیرازی
 
Top