عَروضی بُحور میں سے ایک بحر «بحرِ بسیط» (مُستَفعِلُن فاعِلُن مُستَفعِلُن فاعِلُن) فقط عربی شاعری سے مخصوص ہے، اور فارسی و تُرکی و اُردو شاعری میں یہ مذکورہ بحر رائج نہیں رہی۔ لیکن «عبدالرحمٰن جامی» کے «رِسالهٔ عَروض» پر نِگاہ دوڑاتے ہوئے نظر آیا کہ اُنہوں نے «بحرِ بسیط» کی مثال دینے کے لیے اِس بحر میں بھی ایک بَیت کہی ہے:
چون خار و خس روز و شب اُفتادهام در رهَت
باشد که بر حالِ من اُفتَد نظر ناگهَت
(عبدالرحمٰن جامی)
میں خار و خس کی مانند روز و شب تمہاری راہ میں پڑا ہوا ہوں۔۔۔ [کہ] شاید تمہاری نظر ناگہاں میرے حال پر پڑ جائے۔۔۔
==========
«عبدالرحمٰن جامی» کے دوست و مُرید و شاگرد «امیر علیشیر نوایی» نے بھی زبانِ تُرکی میں ایک عَروضی رِسالہ «میزان الاوزان» لِکھا تھا، جس میں تُرکی شاعری پر مرکزی توجُّہ رکھتے ہوئے فنِّ عَروض پر بحث کی گئی تھی۔ اُس رِسالے میں «جامی» کی مانند اُنہوں نے بھی «بحرِ بسیط» کی مِثال دیتے وقت ایک تُرکی بَیت منظوم کی ہے، حالانکہ تُرکی میں بھی «بحرِ بسیط» کسی وقت رائج نہیں رہی۔
عشقینگ مېنی تون و کون مجنون و زار أیلهمیش
کۉنگلومنی زار و حزین، جِسمیم نِزار أیلهمیش
(امیر علیشیر نوایی)
تمہارے عشق نے مجھ کو شب و روز مجنون و زار کر دیا ہے۔۔۔ [علاوہ بریں،] میرے دل کو زار و حزین، اور میرے جِسم کو لاغر و نحیف کر دیا ہے۔۔۔
Ishqing meni tunu kun majnunu zor aylamish,
Ko'nglumni zoru hazin, jismim nizor aylamish.
==========
جِن دوستوں کو اِس «بحرِ بسیط» کا آہنگِ موزوں سمجھنے میں دُشواری ہو رہی ہے اُن کی آسانی کے لیے بتاتا چلوں کہ یہ وہی بحر ہے کہ جس میں «شرَفالدین بوصَیری» نے اپنا معروف «قصیدۂ بُردہ» لِکھا تھا۔ اُس قصیدے کی ابیات کو ترنُّم کے ساتھ گُنگُنا کر بحرِ ہَذا کے آہنگ سے آشنائی حاصل کی جا سکتی ہے۔