حسان خان

لائبریرین
خوش چمَنی‌ست عارِضت خاصّه که در بهارِ حُسن
حافظِ خوش‌کلام شد مُرغِ سُخن‌سرایِ تو
(حافظ شیرازی)


تمہارا رُخسار اِک زیبا و سرسبز و دِل‌پذیر چمن ہے، خُصوصاً بہارِ حُسن میں، [کہ جب] «حافظِ» خوش‌کلام تمہارا مُرغِ سُخن‌سرا ہو گیا ہے۔۔۔ (یعنی بہارِ حُسن کے موسِم میں «حافظِ» اِک خوش‌آواز پرندے کی مانند تمہاری سِتائش میں شاعری و نغمے گا رہا ہے اور اِس سے تمہارے خُوب و سرسبز چمنِ رُخسار کی زیبائی و خُرّمی میں اِضافہ ہو گیا ہے۔)
 

حسان خان

لائبریرین
به عيادت قدمی رنجه نما بر سرِ کُویم
تا كه جان نامده بر لب غمِ دل با تو بِگویم
(راجی تبریزی)


ذرا عیادت کے لیے میرے کُوچے میں قدم رنجہ فرماؤ۔۔۔ تاکہ جان کے لب پر آ جانے سے قبل مَیں تم سے غمِ دل کہہ لوں!
 

حسان خان

لائبریرین
ای نسیم از سرِ کُویِ بُتِ من می‌آیی
بر من آهِسته گُذر کآتشِ جانم تیز است
(راجی تبریزی)


اے بادِ نسیم! تم میرے بُت (معشوقِ زیبا) کے کُوچے سے آ رہی ہو۔۔۔ مجھ پر [سے] آہِستہ گُذرو کیونکہ میری آتشِ جاں تیز ہے۔۔۔
 

محمد وارث

لائبریرین
رُباعی از شیخ ابوسعید ابوالخیر

از بارِ گُنہ شد تنِ مسکینم پست
یا رب چہ شود اگر مرا گیری دست
گر در عملم آنچہ ترا شاید، نیست
اندر کرمت آنچہ مرا باید، ہست


گناہوں کے بوجھ سے مجھ مسکین کا تن پست ہو چکا ہے، یا رب کیا ہو اگر تُو اس حالت میں میری دست گیری کرے، کیونکہ اگر میرے عملوں میں وہ کچھ نہیں ہے جو تیرے لائق ہے، تو تیرے لطف و کرم میں تو وہ سب کچھ موجود ہے جو مجھ گنہگار کو اس حالت میں تھامنے کے لیے ضروری ہے۔
 

نوید ناظم

محفلین
شیخی بہ زنی فاحشہ گفتا: مستی
ھر لحظہ بہ دام دگری پابستی؛
گفتا؛ شیخا، ھرآن چہ گویی ھستم،
آیا تو چنان کہ می نمایی ھستی؟
(عمر خیام)

ایک شیخ نے ایک فاحشہ عورت سے کہا اے خراب حال
تو ہر وقت دوسروں کو پھانسنے میں لگی رہتی ہے
اُس نے کہا اے شیخ تو جو بھی کہہ لے کہ میں ہوں
لیکن کیا تو بھی (باطن میں) ویسا ہی ہے جیسا (ظاہر میں) نظر آتا ہے۔
 
ای که از دفترِ عقل آیتِ عشق آموزی
ترسم این نکته به تحقیق ندانی دانست

(حافظ شیرازی)
اے دفترِ عقل سے آیتِ عشق پڑھنے (کی کوشش کرنے) والے! مجھے ڈر ہے کہ راہِ عقل و تحقیق سے تم عشق کے اِس باریک نکتے کو یقیناً درستی سے سمجھ نہیں سکو گے۔
× ندانی دانست = نتوانی دانست
زیادہ بہتر تو یہاں نتانی دانست ہوگا، لیکن کیا فارسی میں کسی دیگر جا پر توانستن کے بجائے دانستن کاربردہ ہوا ہے؟
 

محمد وارث

لائبریرین
شد طبیبِ ما محبت، منتَش بر جانِ ما
محنتِ ما راحتِ ما، دردِ ما درمانِ ما


نُورالدین ظہوری ترشیزی

محبت ہمارے لیے ہمارا طبیب بن گئی ہے اور اٗس کے احسان اور عنایتیں ہماری جان پر ہیں، اور اسی لیے ہمارے غم و رنج و الم ہی ہماری راحت ہیں اور ہمارا درد ہی ہمارا درمان ہے۔
 
تا نیابی ترجمانی هم‌چو عیسیٰ در کنار
بر لبِ خود مهر چون مریم نمی‌باید زدن
(صایب تبریزی)

جب تک اپنے پاس حضرت عیسیٰ جیسا ترجمان نہیں پا لیتے، حضرت مریم کی طرح اپنے لب پر مہر نہیں لگانی چاہیے۔

تشریح:
جب یہود نے بدونِ شوہر حضرت مریم کے ہاں حضرت عیسیٰ کی پیدائش پر تعجب کا اظہار کیا اور حضرت مریم کو موردِ طعن قرار دیا تو حضرت مریم نے بغیر بولے نوزاد حضرت عیسیٰ کی طرف اشارہ کیا۔ حضرت عیسیٰ نے نوزادگی میں کلام کرکے حضرت مریم کی پاکدامنی و عفت کی گواہی دی۔ صائب مذکورہ بالا شعر میں کہتے ہیں کہ اس واقعے کے برعکس، اگر کوئی ایسا ترجمان موجود نہ ہو جو شخصِ بےگناہ کی پاک دامنی ثابت کرسکے، تو آں‌گاہ خاموش رہنا مصلحت نہیں۔
 

منذر رضا

محفلین
مو بمو قفلِ زبان باش کہ در مذہبِ عشق
با بتان جز بلبِ رمز تکلم کفر است
(طالب آملی)
مو بہ مو (یعنی کلاََ) زبان کا تالا بن جا کہ مذہبِ عشق میں بتوں سے لبِ رمز کے علاوہ تکلم کفر ہے
 

منذر رضا

محفلین
در پئے مستیء ہر شام خمارِ سحر است
مخفیا! بزمِ فرحناک کدامست اینجا؟
(شاہزادی زیب النسا مخفی)
ہر شام کی مستی کے درپے سحر کا خمار ہے
اے مخفی! یہاں بزمِ فرحناک کہاں ہے؟
 
رفت پنجه سال و حسرت میخوری اکنون، ولی
تیر چون از شست بیرون شد پشیمانی چه سود؟
(اوحدی مراغه‌ای)

پچاس سال (گزر) گئے اور اب حسرت کر رہے ہو امّا جب تیر شست سے بیرون ہوگیا تو پشیمانی کا کیا فائدہ؟

شست کمان کے قبضے کو بھی کہتے ہیں اور زہ گیر کو بھی کہتے ہیں جو تیر انداز انگشتِ شست (انگوٹھے) کی حفاظت کے لئے پہنتے ہیں۔
 
نامه‌ی عیب کسان، گیرم، که برخوانی چو آب
نیم حرف از نامه‌ی خود برنمی‌خوانی چه سود؟

(اوحدی مراغه‌ای)
میں مانتا ہوں کہ تو لوگوں کے نامۂ عیب آب کی مانند خوانتا (پڑھتا) ہے۔ اگر اپنے نامۂ (عیب) سے نیم حرف بھی تو نہیں خوانتا تو کیا فائدہ؟
 
بر مردمِ آواره زمین تنگ نمی‌شد
گر دیده‌ی خودبینِ فلک تنگ نمی‌بود
(حیدری وجودی)

بےخانمان و پریشاں لوگوں پر زمین تنگ نہ ہوتی اگر آسمان کی چشمِ خودخواہ تنگ نہ ہوتی۔
 
آخری تدوین:
در خزانِ عمرِ صورت‌سوز بی‌سیرت نشد
حسنِ معنی‌دارِ یار و عشقِ بامعنایِ من

صورت‌سوز عمر کی خزاں میں یار کا پُرمعنی حُسن اور میرا بامعنی عشق رُسوا نہیں ہوا۔

نیست ممکن نقدِ حالِ خویش را پنهان کنم
چون بود آیینه‌ی امروزِ من فردایِ من
(حیدری وجودی)

ممکن نہیں ہے کہ میں اپنے موجودہ حال کو پنہاں کروں جب میرے امروز (آج) کا آئینہ میرا فردا (آنے والا کل) ہے۔
 
چرا به‌عالمِ پیری خراب و خوار شود
به‌روزگارِ جوانی کسی‌که کار کند
(حیدری وجودی)

جو جوانی کے زمانے میں کام کرے، وہ پیری (بُڑھاپے) کے عالم میں کیوں خراب و خوار ہو؟
 
شب چراغِ خیمه‌ی لیلا که روشن می‌شود
کس چه می‌داند چها بر جانِ مجنون می‌رود
(حیدری وجودی)

رات کو لیلا کے خیمے کا چراغ روشن ہوتا ہے تو کسی کو چہ معلوم کہ مجنون کی جان پر کیا کچھ گزرتا ہے!
 

محمد وارث

لائبریرین
گفتی ز جنونِ تو و مجنوں چہ تفاوت
رسوائے تو ام، خواہ کم و خواہ برابر


ابوالفیض فیضی دکنی

تُو نے پوچھا کہ تیرے جنون اور مجنوں کے جنون میں کیا فرق ہے؟ (مجھے کیا علم کہ) مجھے تو تیرے ہی عشق نے رسوا کیا، میں تو تیرا ہی رسوا ہوں، اب چاہے میرا جنون مجنوں کے جنوں سے کم ہو چاہے اس کے برابر۔
 

فاخر

محفلین
رحمانی بھائی! آپ کا نشانہ چوک گیا ہے؛ ہم کوشش کر دیکھتے ہیں۔:)
سید عاطف علی
محمد تابش صدیقی

لیکن تھوڑی سی مشقت اور توڑ جوڑ کے بعد اس کی بحر پتہ چل گئی ،پھر عروض ڈاٹ کام نے بھی میرا کام کچھ آسان کردیا۔ :LOL::LOL::in-love::in-love::in-love:

ہزج مثمن اخرب سالم

مفعول مفاعیلن مفعول مفاعیلن

شُد جامیٔ بیچارہ از عشق تو آوارہ
آوارۂ غربت را در خاک نہاں کردی
 
Top