سید عاطف علی

لائبریرین
ویسے جانے اس دھاگے میں ایسا کیا ہے کہ صفحات کے صفحات گزر جاتے ہیں اور پتہ تک نہیں چلتا اطلاعات کا ۔ حالانکہ یہ میری توجہ کا خاص دھاگا ہے ۔
لاحول ولا قوۃ الا باللہ۔
 

عدنان عمر

محفلین
ویسے جانے اس دھاگے میں ایسا کیا ہے کہ صفحات کے صفحات گزر جاتے ہیں اور پتہ تک نہیں چلتا اطلاعات کا ۔ حالانکہ یہ میری توجہ کا خاص دھاگا ہے ۔
لاحول ولا قوۃ الا باللہ۔
جناب! میرا بھی یہی تجربہ ہے۔ اس دھاگے کی اکثر اپ ڈیٹس بذریعہ اطلاعات موصول نہیں ہوتیں۔
 
دل در خمِ زلفِ دلبرانست هنوز
افسانهٔ عشق در میانست هنوز
گفتیم که ما و دل بهم پیر شویم
ما پیر شدیم و او جوانست هنوز
اقبالؒ
ترجمہ:
دل ابھی تک دلبروں کی زلف کے خم میں (پھنسا ہوا) ہے؛ عشق کا افسانہ ابھی تک بیچ میں ہے؛ ہم نے کہا تھا ہم اور دل ایک ساتھ بوڑھے ہوں گے؛ ہم بوڑھے ہو گئے اور دل ابھی تک جوان ہے۔
 
دل در خمِ زلفِ دلبرانست هنوز
افسانهٔ عشق در میانست هنوز
گفتیم که ما و دل بهم پیر شویم
ما پیر شدیم و او جوانست هنوز
اقبالؒ
ترجمہ:
دل ابھی تک دلبروں کی زلف کے خم میں (پھنسا ہوا) ہے؛ عشق کا افسانہ ابھی تک بیچ میں ہے؛ ہم نے کہا تھا ہم اور دل ایک ساتھ بوڑھے ہوں گے؛ ہم بوڑھے ہو گئے اور دل ابھی تک جوان ہے۔
یہ اقبال کا نہیں، عبید زاکانی کی رباعی ہے
 

محمد وارث

لائبریرین
بجز غوغائے عشقِ تو درونِ دل نمی یابم
بجز سودائے وصلِ تو میانِ جاں نمی دانم


شیخ فخرالدین عراقی

تیرے عشق کے شور و ہنگامہ و نعرہ و ہمہمہ کے سوا میں اپنے دل کے اندر اور کچھ بھی نہیں پاتا، اور تیرے وصل کے جنون و دیونگی و شوق کے سوا میں اپنی جان میں اور کچھ بھی نہیں جانتا۔

(دونوں مصرعوں کے تمام الفاظ بھی ایک دوسرے کے ہم وزن ہیں)۔
 

محمد وارث

لائبریرین
کوکبم را در عدم اوجِ قبولی بودہ است
شہرتِ شعرم بہ گیتی بعدِ من خواہد شدن


مرزا غالب دہلوی
(یومِ وفات: 15 فروری)

میری قسمت کے ستارے کو مقبولیت کی بلندیاں عدم میں حاصل ہوئی ہیں، لہذا اس دنیا میں میرے کلام کی شہرت بھی میرے بعد ہی ہوگی (جب میں عدم میں ہونگا)۔
 
دلبرا، عمریست تا من دوست می دارم ترا
در غمت می سوزم و گفتن نمی یارم ترا


اے میرے معشوق! ایک عمر گزر گئی ہے کہ میں تجھ سے دوستی اور محبت رکھتا ہوں۔ تیرے غم میں جلتا رہتا ہوں لیکن مجھ میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ میں تجھ سے یہ بات بیان کر سکوں۔



وای بر من کز غمت می میرم و جان می دهم
واگهی نیست از دل افگار بیمارم ترا


افسوس ہے، میری حالت پر کہ میں تیرے غم میں مرا جا رہا ہوں اور میں جان تک دے رہا ہوں اور تجھے میرے زخمی اور بیمار دل کی کیفیت سے کوئی خبر ہی نہیں ہے۔ تجھے پتا ہی نہیں ہے کہ میں تیرے غم میں مرتا جا رہا ہوں اور میرا بسمل دل مجھے موت کی طرف لے جا رہا ہے۔


ای به تو روشن دو چشم گر درآری سر به من
از عزیزی همچو نور دیده می دارم ترا


ا ے میرے معبوب! تیری وجہ سے میری دو آنکھیں روشن ہیں بشرطیکہ تو میری طرف توجہ کرے۔میں تو تمہیں اتنا پیار کرتا ہوں جیسے کہ میں اپنی آنکھوں میں بینائی کا نور رکھتا ہوں۔



داری اندر سر که بگذاری مرا و من برآنک
در جمیع عمر خویش از دست نگذارم ترا


تیرے سر میں شاید یہ خیال ہے کہ تو مجھے بھول جائے گا اور میں اس خیال میں ہوں کہ ساری عمر میں تمہیں اپنے ہاتھ سے نہیں جانے دوں گا۔



خواری و آزار بر من، گر به تیغ آید ز تو
خارم اندر دیده، گر با گل بیازارم ترا


اگر تیری طرف سے کوئی تیغ جفا میری جانب آ جائے تو میں خوار اور بد حال و پریشان ہو جاتا ہوں۔ اگر میں تجھے ایک پھول مار کر بھی پریشان کروں تو میری آنکھوں میں کانٹے چبھ جائیں۔


یک زمان از پای ننشینم به جست و جوی تو
یا کنم سر را فدایت، یا به دست آرم ترا


ایک لمحے کے لیے بھی اپنے پاؤں پر نہیں بیٹھا اور تیری تلاش میں مصروف رہا ہوں (اور یہ ارادہ کر لیا ہے کہ) یا تو میں اپنا سر تجھ پر قربان کر دوں گا یا تجھے پا لوں گا۔



نیست شرط، ای دوست، با یاران دیرینت جفا
شرم دار آخر که من یار وفادارم ترا


اے دوست ! تیرے پرانے دوستوں کے ساتھ جفا برداشت کئے جانے کی کوئی شرط تو نہ تھی۔ ذرا شرم کر کہ آخر کار میں تمہارا ایک پرانا وفادار دوست ہوں۔ (اس لئے ملاپ کا موقع ضرور دے دے)

امیرخسرو دهلوی
 
رومی کا ایک "سائنسی" شعر

پولادپارہ ھائیم، آھن رُباست عشقَت
اصلِ همه طلب تُو، در خود طلب ندیدم
(رومی)


ہم فولاد پارے ہیں، اور تیرا عشق آہن رُبا (مقناطیس)۔ طلب کا منبع بھی تُو ہی ہے، کہ از خود تَو ہمارے اندر وہ بھی نہیں ۔
(مفہوم)
 
هر آن‌کس که پوشید درد از پِزِشک
ز مژگان فرو ریخت خونِ سِرِشک
(فردوسی طوسی)

جس کسی نے بھی پزشک ( معالج ) سے درد پوشیدہ رکھا، اس نے پلکوں سے خون کے آنسو بہائے.
 

لاریب مرزا

محفلین
از خُدا چون مرگِ خود خواهم، همی‌گوید بلند
کین دُعا کم کُن، ولی آهسته آمین می‌کند
(عبدالرحمٰن جامی)


میں جب خُدا سے اپنی موت کی خواہِش کرتا ہوں تو وہ [میرا یار بہ آوازِ] بُلند تو یہ کہتا ہے کہ "یہ دُعا کم کرو!"، لیکن آہِستہ [اور زیرِ لب] "آمین!" کہتا ہے۔۔۔ :(
:)
 

سید عاطف علی

لائبریرین
تنم از ضعف چناں شد کہ اجل جست و نیافت
نالہ ہرچند نشاں داد کہ در پیرہن است


میرا جسم ضعف سے اتنا لاغر ہو کہ موت نے اسے ڈھونڈا اور اسے نہیں ملا ۔
اگر چہ میرا نالہ اسے صدا دیتا رہا کہ یہاں پیرہن میں ہے۔
نہ جانے یہ کس کا شعر ہے۔
البتہ ناسخ کا ایک شعر اسے پڑھ کے یاد آگیا ۔
انتہائے لاغری سے جب نظر آیا نہ میں
ہنس کے وہ کہنے لگے بستر کو جھاڑا چاہیئے
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
دریں گُلشن پریشاں مثلِ بُویَم
نمی دانم چہ می خواہم چہ جُویَم
برآید آرزو یا بر نیایَد
شہیدِ سوز و سازِ آرزویَم


علامہ محمد اقبال

میں دُنیا کے اس گُلشن میں خوشبو کی طرح پھیلا ہوا ہوں، اور نہیں جانتا کہ میں کیا چاہتا ہوں اور کس کی تلاش میں ہوں۔ میری آرزو پوری ہوتی ہے یا پوری نہیں ہوتی (مجھے اس سے کچھ سروکار نہیں کہ) میں تو صرف آرزو کے سوز و ساز کا قتیل ہوں، شہید ہوں۔
 
ما معنی ِ مسلسلِ زُلفِ تو خوانده ایم
مشکل کہ مرگ قطع کنَد داستانِ ما


ابو المعانی میرزا عبدالقادر بیدل


میں تری زُلفِ مسلسل کا ہوں معنی آشنا
موت بھی میری کہانی ختم کر سکتی نہیں!

 

اے خان

محفلین
دریں گُلشن پریشاں مثلِ بُویَم
نمی دانم چہ می خواہم چہ جُویَم
برآید آرزو یا بر نیایَد
شہیدِ سوز و سازِ آرزویَم


علامہ محمد اقبال

میں دُنیا کے اس گُلشن میں خوشبو کی طرح پھیلا ہوا ہوں، اور نہیں جانتا کہ میں کیا چاہتا ہوں اور کس کی تلاش میں ہوں۔ میری آرزو پوری ہوتی ہے یا پوری نہیں ہوتی (مجھے اس سے کچھ سروکار نہیں کہ) میں تو صرف آرزو کے سوز و ساز کا قتیل ہوں، شہید ہوں۔
واہ آہ
 
Top