بیدل آں فتنہ کہ طوفانِ قِیامت دارَد
غیردِل نیست،ہمیں خانہ خراب است ایں جا


ابو المعانی میرزا عبدالقادر بیدل

بیدل! وہ فتنہ جو طوفانِ قیامت رکھتا ہے اور کوئی نہیں میرا ہی دل خانہ خراب ہے

منظوم ترجمہ:

وہ فِتنہ کہ طوفانِ قِیامت کا امیں ہے
بیدل! دلِ مضطر کے سوا کوئی نہیں ہے

ڈاکٹر سید نعیم حامد علی الحامد
 

محمد وارث

لائبریرین
رُباعی از انوری ابیوردی

مے نوش کنم و لیک مستی نکنم
اِلا بہ قدح دراز دستی نکنم
دانی غرضم ز مے پرستی چہ بُوَد
تا ہم چو تو خویشتن پرستی نکنم


مے نوشی کرتا ہوں لیکن مستی نہیں کرتا، سوائے جام کی طرف ہاتھ بڑھانے کے، کسی بھی قسم کی دراز دستی نہیں کرتا۔ کیا تُو جانتا ہے کہ مے پرستی سے میری غرض کیا ہوتی ہے؟ وہ یہ کہ (بے خود ہو جاؤں اور) تیری طرح اپنی ہی پرستش (خود پرستی) نہ کروں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
دائم دریں خیال کہ بینم جمالِ یار
گر صبح ہست خاطرِ من شاد، شام نیست


محمد حسن قتیل لاہوری

میں ہمیشہ اور ہر وقت ہی اس خیال میں ہوتا ہوں کہ جمالِ یار کا نظارہ کروں، اگر صبح کے وقت میرا دل شاد ہوتا ہے (نظارہ ہو جاتا ہے) تو افسوس شام کو نہیں ہوتا۔
 
اے خسروِ خوباں نظرے سوئے گدا کن
رحمے بمنِ سوختئہ بے سروپا کن
ا
ے حسینوں کے بادشاہ! فقیر پر ایک نظر کر۔ مجھ جلے ہوئے ، بے سروپا پر، رحم کر۔

دارد دلِ درویش تمنائے نگاہے
زآں چشمِ سیہ مست بیک غمزہ روا کن

فقیر کا دل ، ایک نگاہ کا آرزو مند ہے۔ اس مست، کالی آنکھ کی ایک ادا سے حاجت روائی کر دے۔

شمع و گُل و پروانہ و بلبل ہمہ جمع اند
اے دوست بیا رحم بہ تنہائی ما کن

شمع ، گل، پروانہ اور بلبل سب جمع ہیں۔ اے دوست آجا، ہماری تنہائی پر رحم کر۔

با دلِ شدگاں جوروجفا تا بکے آخر
آہنگِ وفا ترکِ جفا بہرِ خدا کن

بے دلوں پر آخر کب تک ظلم و ستم کرے گا؟ خدا کے لئے وفا کا ارادہ کر، اور جفا چھوڑ دے۔

مشنو سخنِ دشمنِ بد گوئے خدارا
با حافظِ مسکینِ خود اے دوست وفا کن

خدا کے لئے، بد گو دشمن کی بات نہ سن ۔اے دوست ! اپنے مسکین ، حافظ کے ساتھ وفا کر۔

حافظ (خواجہ شمس‌الدین محمد شیرازی)
 

غالب میر

محفلین
فارسی جاننے والے صاحب علم حضرات ایک مدد کر دیں مہربانی ہو گی۔۔۔۔
بہت پہلے کسی نے ایک فارسی کا شعر سنایا تھا جس میں بیٹا باپ کو حسن جاناں کے جلوہ کے بارے میں بتا رہا ہے۔۔۔۔ مجھے کچھ عرصہ پہلے وہ گوگل پر ملا بھی لیکن اب تلاش کے باوجود میں اسے ڈھونڈ نہیں پا رہا ۔۔۔۔
اس کا متن کچھ یوں کر کے تھا
جلوہ جاناں نہ دیدہ ای
روئے سفید و زلف پریشان

اگر کوئی مدد کر سکے مہربانی ہو گی
 
فارسی جاننے والے صاحب علم حضرات ایک مدد کر دیں مہربانی ہو گی۔۔۔۔
بہت پہلے کسی نے ایک فارسی کا شعر سنایا تھا جس میں بیٹا باپ کو حسن جاناں کے جلوہ کے بارے میں بتا رہا ہے۔۔۔۔ مجھے کچھ عرصہ پہلے وہ گوگل پر ملا بھی لیکن اب تلاش کے باوجود میں اسے ڈھونڈ نہیں پا رہا ۔۔۔۔
اس کا متن کچھ یوں کر کے تھا
جلوہ جاناں نہ دیدہ ای
روئے سفید و زلف پریشان

اگر کوئی مدد کر سکے مہربانی ہو گی
جان پدر! تو جلوه‌یِ خوبان ندیده‌ای
رویِ چو ماه و زلفِ پریشان ندیده‌ای

جانِ پَدَر! تو نے جلوہٗ خوباں نہیں دیکھا ہے۔ تو نے چاند جیسا چہرہ اور منتشر و پراگندہ زلف نہیں دیکھی ہے۔
 

غالب میر

محفلین
جان پدر! تو جلوه‌یِ خوبان ندیده‌ای
رویِ چو ماه و زلفِ پریشان ندیده‌ای

جانِ پَدَر! تو نے جلوہٗ خوباں نہیں دیکھا ہے۔ تو نے چاند جیسا چہرہ اور منتشر و پراگندہ زلف نہیں دیکھی ہے۔
بہت شکریہ جناب ۔۔۔۔۔ ایک اور مہربانی کیا اس کے بارے مزید تفصیلات مل سکتیں ہیں۔۔۔۔ یہ کس کا لکھا کلام ہے اور مکمل مل سکتی ہے
 
بہت شکریہ جناب ۔۔۔۔۔ ایک اور مہربانی کیا اس کے بارے مزید تفصیلات مل سکتیں ہیں۔۔۔۔ یہ کس کا لکھا کلام ہے اور مکمل مل سکتی ہے
انٹرنیٹ پر مجھے اس کا ماخذ نہیں مل سکا. ایک قصے کی صورت میں ہی ہر جگہ درج ہے
 
مثنویِ معنوی میں رومی ایک جگہ کہتے ہیں :
دوست دارد یار این آشفتگی
کوششِ بی‌هوده بِه از خفتگی
( مولوی رومی)

اس پریشان‌حالی کو دوست پسند کرتا ہے. سونے سے لاحاصل کوشش بہتر ہے.

مترجم: قاضی سجاد حسین
 

محمد وارث

لائبریرین
رُباعی از سید نصیر الدین نصیر

بے ذوقِ خود آگہی طلب بے کار است
رمزیست کہ فاش بر اُولی الابصار است
آں نورِ ازل کہ گم شدہ از کفِ تو
دریاب بہ دل کہ دل حریمِ یار است


خود آگہی کے ذوق کے بغیر تیری طلب، تیری تلاش بیکار ہے، اور یہ ایک ایسی رمز ہے کہ جو صاحبانِ بصیرت پر آشکار ہے۔ وہ نورِ ازل کہ جو تیرے ہاتھوں سے گم ہو گیا ہے، اُسے اپنے دل میں پا لے کہ دل ہی یار کا ٹھکانہ ہے، دل ہی حریمِ یار ہے۔
 

اے آر مروت

محفلین
السلام علیکم محترم اس کلام کا اردو ترجمہ درکار ہے
اے یارِ من اے یار من اے یار بے زنہار من
اے ہجر تو دلسوز من اے لطف تو غمخوار من

خوش میروی در جان من چون میکنی درمان من
اے دین و اے ایمان من اے سحر گوہر بار من

ہم مونس غمخوارِ من ہم دولت خندان من
واللہ کہ صد چندان من یکدست از بسیار من

اے شبراؤن را مشغلہ دیوانگان را سلسلہ
اے منزل ہر قافلہ اے قافلہ سالار من

ہم رہزنی ہم رہبری ہم ماہی و ہم مشتری
ہم این سری ہم آن سری ہم گنج استظہار من

اے جان من اے جان من سلطان من سلطان من
دریاے بے پایان من بالاتر از پندار من

اے خاک تو افلاک من اے زہر تو تریاک من
ذوق دل غمناک من شوق ہمہ اسرار من

گوید بیاشر حی بگو گویم چگویم پیش تو
گوید بیا حیلہ مجو اے بندۂطرارِ من

گر گنج خواہی سربنہ ور عشق خواہی جان بدہ
در صف در آوپس مجہ اے حیدرِ ّکرار من

(مولانا روم علیہ الرحمہ)
 
مژده‌یِ وصلِ تو کو کز سرِ جان برخیزم
طایرِ قدسم و از دامِ جهان برخیزم

تیرے وصل کی خوش‌خبری کہاں ہے تاکہ جان سے ہاتھ دھولوں۔میں عالمِ‌قدس کا پرندہ ہوں، اور دنیا کے جال سے نکل جاتا ہوں۔

به‌وِلایِ تو که گر بنده‌یِ خویشم خوانی
از سرِ خواجگیِ کون و مکان برخیزم

تیری محبت کی قسم، اگر تو مجھے اپنا غلام کہہ دے، کون و مکاں کی بادشاہی سے میں دست‌بردار ہوجاوٗں۔

یا رب از ابرِ هدایت برسان بارانی
پیشتر زان که چو گردی ز میان برخیزم

اے خدا! ہدایت کے ابر سے بارش برسادے، اس سے پہلے کہ میں گَرد کی طرح درمیان سے اٹھوں۔

بر سرِ تربتِ من با می و مطرب بنشین
تا به بویت ز لحد رقص‌کنان برخیزم

میری قبر پر شراب اور مُطرب کے ساتھ بیٹھ تاکہ تیری خوش‌بو کی وجہ سے لحد سے رقص کرتا ہوا اُٹھ کھڑا ہوں

خیز و بالا بنما ای بتِ شیرین‌حرکات
کز سرِ جان و جهان دست‌فشان برخیزم

اے میٹھی اداوٗں والے بت (یا معشوق) ! اُٹھ اور (اپنا) قد و قامت دکھا تاکہ میں جان اور جہان سے رقص کرتے ہوئے اٹھ جاوٗں۔

گر چه پیرم، تو شبی تنگ در آغوشم کش
تا سحرگه ز کنارِ تو جوان برخیزم

اگرچہ میں بوڑھا ہوں، تو ایک رات کو مجھے بغل میں خوب کھینچ لے، تاکہ صبح کو تیری بغل سے جوان اُٹھوں

روزِ مرگم نفسی مهلتِ دیدار بده
تا چو حافظ ز سرِ جان و جهان برخیزم

(میرے) مرنے کے دن مجھے ایک لمحے کے لئے اپنے دیدار کی مہلت دے تاکہ میں حافظ کی طرح جان و جہان سے ہاتھ دھولوں۔
(حافظ شیرازی)

پانچواں اور آخری شعر کے علاوہ باقی تمام اشعار کا ترجمہ قاضی سجاد حسین کے ترجمہ کردہ دیوانِ حافظ سے لیا گیا ہے۔
 
آخری تدوین:
چند روز پہلے میں ایرانی نَو اندیش و روشن فکر دکتر عبدالکریم سروش کی ایک سخن رانی بعنوانِ ’’بوئے خدا‘‘ سن رہا تھا۔ اپنی سخن رانی میں انہوں نے مولوی رومی کی ایک زیبا غزل کے چند اشعار خوانے (پڑھے) جو مجھے نہایت جالب لگے اور سوچا کہ اس غزل کے چند اشعار کا ترجمہ کرکے ان کی اشتراک گذاری (شئیر) آپ سب کے ساتھ کروں، لیکن یہ اشعار ایسے تھے جو ترجمہ تو ہوجاتے لیکن ان کا مفہوم سمجھنا میرے لئے قدرے دشوار تھا۔ فضائے مجازی (انٹرنیٹ) پر فارسی میں دیوانِ شمس کی تشریح مجھے نہ مل سکی، البتہ پھر مجھے خیال آیا کہ دیوانِ شمس کی ترکی تشریح بنامِ ’’Divanı Kebirden seçmeler‘‘ (جو شفیق جان کی تالیف ہے) تو موجود ہے تو کیوں نہ اس کو خوانا جائے۔ اگرچہ میری ترکی ہنوز اتنی محکم نہیں ہے، لیکن اس کے باوجود میں نے لغت کی مدد سے مشکل واژوں (الفاظ) کے معنی سمجھ کر اس ترکی تشریح کو خوانا اور یوں مجھے ان اشعار کا مفہوم واضح ہوگیا۔ اگر مجھے ترکی نہ آتی تو شاید مجھے اس غزل کے اصل مفہوم کو فہم کرنے کے لئے نمعلوم کتنا وقت درکار ہوتا، امّا میرے ادبیاتِ فارسی کے اساتذہ میں سے ایک استاد اور زبانِ ترکی کے تنہا معلم دوستِ صمیمی و برادرم حسان خان کی تشویق کی بنیاد پر میں نے ان کی نگرانی میں ترکی‌آموزی کا سلسلہ شروع کیا اور امروز میں اس قابل ہوں کہ ترکی زبان کو خوان (پڑھ) سکوں اور فہم کرسکوں اور یوں اس ترکی شرح کو خوان سکوں لہٰذا ناروا اور ناپذیرفتنی ہوگا اگر میں برادرم حسان خان کا شکریہ ادا نہ کروں۔
اما بعد، ذیل میں جلال الدین رومی کی غزل ترجمہ سمیت درج ہے۔


در دلت چیست عجب که چو شکر می‌خندی
دوش شب با کی بدی که چو سحر می‌خندی

(اے میرے محبوب) تیرے دل میں ایسا کیا ہے کہ تو شَکَر کی مانند (میٹھا میٹھا) ہنس رہا ہے؟ کل رات تو کس کے ساتھ تھا جو اب تو (وقتِ) سحر کی طرح (شادمانہ، پُرجوش اور تازہ دم) ہنس رہا ہے؟

ای بهاری که جهان از دمِ تو خندان است
در سمن‌زارِ شکفتی چو شجر می‌خندی

اے وہ بہار کہ دنیا تیری سانس سے متبسم ہے! (یعنے تمہارے خوبصورت لبوں سے نکلنے والی سانس دنیا کو خوش اور تازہ کردیتی ہے اس لئے تمہارا وجود دنیا کے لئے بہار کے موسم کی مانند ہے)۔ حیرت‌ اور تعجب کے سمن‌زار میں تو درخت کی طرح ہنستا ہے (یعنے تو گل‌ہائے یاسمن کے درمیان ایک گلِ‌شگفتہ سے معمور درخت جیسا ہے)

مست و خندان ز خراباتِ خدا می‌آیی
بر شر و خیرِ جهان همچو شرر می‌خندی

تو مست اور شادماں حالت میں (عاشقانِ) خدا کے مےخانے سے آرہا ہے۔(وہاں چونکہ تو نے حقیقتِ اصلی و ابدی کو سمجھا اور زندگی کے معانی کو جانا لہٰذا) تو دنیا کے خیر و شر پر شرر (چنگاری) کی مانند ہنستا ہے۔

همچو گل نافِ تو بر خنده بریده‌ست خدا
لیک امروز مها نوعِ دگر می‌خندی

(مجھے معلوم ہے کہ) خدا نے تیری ناف گُل کی مانند مسکرا کر کاٹا ہے (اس لئے تو بدمزاجی اور ترش روئی نہیں کرتا)۔لیکن اے چاند! آج تو ایک اور طریقے سے ہنس رہا ہے۔

باغ با جمله درختان ز خزان خشک شدند
ز چه باغی تو که همچون گلِ ‌تر می‌خندی

باغ تمام درختوں سمیت خزاں کی وجہ سے خشک ہوگیا۔(لیکن) تو کس باغ سے ہے کہ (اس خزاں جیسے موسم میں بھی، جہاں سارے درخت و گُل مرجھا چکے ہیں، تُو منہ نہیں بناتا بلکہ) تُو گلِ تر و تازہ کی مانند ہنستا ہے۔

بویِ مشکی تو که بر خنگِ هوا می‌تازی
آفتابی تو که بر قرصِ قمر می‌خندی

(میں تمہیں کس چیز سے تشبیہ دوں؟ میں نہیں جانتا۔شاید) تو مُشک کی خوش‌بو ہے کہ جو ہوا کے گھوڑے کو دوڑاتا ہے (یعنے تو ہوا کے گھوڑے پر سوار ایک بُوئے‌مشک ہے کہ جہاں بھی وہ گھوڑا دوڑائے، وہ جگہ مشک سے معطر ہوجائے)۔(یا شاید خوبصورتی میں آنکھوں کو خِیرہ کردینے والا) ایک آفتاب(سورج) ہے تو کہ جو (بہت دور واقع خودبیں اور کم روشنی پھیلانے والے)چاند کے ٹکرے پر ہنستا ہے۔

تو یقینی و عیان بر ظن و تقلید بخند
نظری جمله و بر نقل و خبر می‌خندی

تو ایک (ثابت شدہ سچائی اور) یقین و اعتقاد ہے اور (اسی لئے ) تو ظن و تقلید پر ہنس!۔ تو سرتاپا نگاہ ہے اسی لئے خبر اور روایت پر ہنستا ہے۔

در حضورِ ابدی شاهد و مشهود تویی
بر ره و ره‌رو و بر کوچ و سفر می‌خندی

ابدیت و ہمیشگی کے مقام پر تو ہی شاہد (دیکھنے والا) اور مشہود (دیکھے جانے والا) ہے۔اسی لئے تو (اس ہمیشگی کے) راستے پر بھی، راستہ چلنے والے پر بھی اور اس کوچ و سفر پر بھی ہنستا ہے (ابدیت کے مقام پر ان ساری چیزوں پر صرف ہنسا جاسکتا ہے)۔

از میانِ عدم و محو برآوردی سر
بر سر و افسر و بر تاج و کمر می‌خندی

تو نے عدم و نیستی اور فنا کے درمیان سے سر نکالا ہے، اسی لئے تو سر پر بھی، تاج و افسر پر بھی اور شاہی کمربند پر بھی ہنستا ہے۔

چون سگِ گرسنه هر خلق دهان بگشاده‌ست
تویی آن شیر که بر جوعِ بقر می‌خندی

ہر کسی نے (دنیا کے مال و متاع کے لقمے سے بھرنے کے کے لئے) سگِ گرسنہ کی مانند منہ کھولا ہوا ہے۔ تو وہ شیر ہے کہ (ان لوگوں کی اس) جوعِ بقر (نہ ختم ہونے والی بھوک) پر ہنستا ہے ۔
 
آخری تدوین:
السلام وعلیکم محمد وارث صاحب
اس شعر کا اگر اردو ترجمہ پیش کرے بہت نوازش ہو گی آپ کی

بنمای بہ صاحب نظرے گوہر خود را
عیسیٰ نتواں گشت بتصدیق خرے چند
اور شاعر کا نام بھی اگر بتا دے تو بہت مہربانی ہو گی آپ کی۔جزاک اللہ
 
بنمای به صاحب‌نظری گوهرِ خود را
عیسی نتوان گشت به تصدیقِ خری چند
(صائب تبریزی)

کسی صاحبِ نظر کو ہی اپنا گوہر دکھا. چند گدھوں کی تصدیق کے لئے عیسی نہیں بنا جاسکتا.
 

محمد وارث

لائبریرین
بیم از وفا مدار و بدہ وعدۂ کہ من
از ذوقِ وعدۂ تو بہ فردا نمی رسم


میلی ہروی

میرے ساتھ صرف وصل کا وعدہ کر لے اور اس وعدے کو پورا کرنے سے مت ڈر کیونکہ میں تیرے وعدے کے ذوق و شوق اور خوشی ہی سے (مر جاؤں گا اور) وعدے کے وقت تک نہیں رہ پاؤں گا۔
 
Top