من تو شدم تو من شدی من تن شدم تو جان شدی
تاکس ناگوید بعد ازیں ، من دیگرم تو دیگری

میں تو ہوں تو میں ہے
میں جسم ہوں تو جان ہے
کوئی نہیں کہہ سکتا
تو الگ ہے اور میں الگ

امیر خسرو
 

حسان خان

لائبریرین
فکندی وعدهٔ قتلم به فردا لیک می‌ترسم
که دیر آید سحر، من جان دهم در انتظار امشب

(محمد فضولی بغدادی)
تم نے میرے قتل کا وعدہ کل پر ٹال دیا ہے لیکن میں ڈرتا ہوں کہ سحر دیر سے آئے گی اور میں آج رات انتظار ہی میں جان دے دوں گا۔

نهان از خلق دارم عزمِ کویش، حِسْبَةً لله
مرا رسوا مساز، ای نالهٔ بی‌اختیار! امشب
(محمد فضولی بغدادی)

میں نے اُس کے کوچے (میں جانے) کا عزم لوگوں سے نہاں رکھا ہوا ہے؛ اے (میرے) نالۂ بے اختیار! خدا کے لیے آج کی شب مجھے رسوا مت کر دینا۔
[حسبة لله = حِ سْ بَ تً لِ لْ لاه = خدا کی رضا کے لیے]

 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
به رندان از جهنم می‌دهد دایم خبر واعظ
مگر مطلق ندیده در جهان جای دگر واعظ

گریبان چاک از این غم می‌کند محراب در مسجد
که آب روی منبر برد با دامان تر واعظ
(فضولی)

واعظ رندوں کو ہر وقت جہنم کی خبر دیتا رہتا ہے، کیا واعظ نے جہاں میں جہنم کے سوا کوئی جگہ بالکل بھی نہیں دیکھی ہے؟

مسجد میں محراب اس غم میں اپنا گریباں چاک کرتا ہے کہ واعظ نے اپنے فسق کی وجہ سے منبر کی عزت خاک میں ملا دی ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
هر که مهرِ چارده معصوم دارد، کامل است
هست ماهِ چارده را هم از آن مهر، این کمال
(محمد فضولی بغدادی)

جو بھی چودہ معصوموں سے محبت رکھتا ہے، وہ کامل ہے۔ چودہویں کے چاند کو بھی اسی محبت کے سبب یہ کمال حاصل ہے۔

اگر امروز دل با خاکِ راهِ مرتضیٰ جوشد
کند محشور فردا فضلِ حق با اصفیا ما را
(ابوالمعانی مرزا عبدالقادر بیدل دهلوی)

اگر آج ہمارے دل مرتضیٰ کی راہ کی خاک سے الفت رکھیں تو کل خدا کا فضل ہمیں برگزیدگان کے ساتھ محشور کرے گا۔

چون به حبِ آلِ زهرا روی شستی، روزِ حشر
نشنود گوشَت ز رضوان جز سلام و مرحبا
(ناصر خسرو)

چونکہ آج تم آلِ زہرا کی محبت سے اپنا چہرہ دھو چکے ہو، لہذا روزِ حشر تمہارے کان رضواں سے سوائے سلام و مرحبا کے کچھ نہیں سنیں گے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
علم و فن را اے جوانِ شوخ و شنگ
مغز می باید نہ ملبوسِ فرنگ
(علامہ اقبال)
اے شوخ و شنگ جوان! علم و فن کے لیے مغز لازمی ہے، نہ کہ فرنگی لباس۔
 

حسان خان

لائبریرین
شاہ شجاع کی مدح میں کہے گئے قصیدے سے ایک شعر:
سیمرغِ وہم را نبوَد قوتِ عروج
آنجا کہ بازِ ہمتِ او سازد آشیاں

(حافظ شیرازی)
جس مقام پر اُس کی ہمت کا باز اپنا آشیانہ بناتا ہے، وہاں تک اونچا اڑ پانے کی سکت میرے وہم کے سیمرغ کو بھی نہیں ہے۔

به این خُرسندم از نِسیانِ روزافزونِ پیری‌ها
که از دل می‌بَرَد یادِ شباب آهسته آهسته
(صائب تبریزی)

میں پِیری کی روز افزوں خراب یادداشت سے اس لیے خوش ہوں کہ یہ آہستہ آہستہ دل سے شباب کی یاد لے جاتی ہے۔
× پِیری = بڑھاپا
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
دلا نزد کسی بنشین۔ کہ او از دل خبر دارد​
بہ زیر آن درختی رو کہ او گل‌ہای تر دارد​
اے دل کسی ایسے شخص کے پاس بیٹھ جس کو دل (کی حقیقی دنیا ) کی خبر ہو۔
ایسے درخت کے نیچے جاؤ جس میں گل تر ( یعنی کچھ مطلوب شئ کے حصول کا امکان ) موجود ہوں ۔
مولانا۔
 

حسان خان

لائبریرین
به مقصد راه کم جو از رکوع ای زاهد گمره
که بسیار آزمودم تیر کج کم بر نشان افتد
(فضولی)
اے گمراہ زاہد! اپنے مقصد تک رسائی کے لیے رکوع کے ذریعے راستے کی تلاش کم کرو، کیونکہ میں بہت بار آزما چکا ہوں کہ خمیدہ تیر کم ہی اپنے نشانے پر بیٹھتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
محمد فضولی کے مسبع کا ایک بند:

در محنت هجران تو، ای سرو سمن بر!
داریم دل مضطرب و جان مکدر
کو مژدهٔ وصلت؟ که دماغ دل مضطر
گردد ز نسیم اثرش باز معطر
زان‌سان که نوید ظفر از ایزد داور
در دشت احد وقت هجوم صف کافر
بهر مدد لشکر خیرالبشر آید.
(فضولی)

اے سروِ سمن بر! تیرے ہجر کے رنج کی وجہ سے ہمارا دل مضطرب اور ہماری جان مکدر ہے۔ تیرے وصال کا مژدہ کہاں ہے؟ کہ جس کی نسیم کے اثر سے ہمارا مضطر دل دوبارہ معطر ہو جائے۔ اس مژدے کا اثر ہم مہجوروں پر ویسا ہی ہوگا جیسا اثر ایزدِ تعالیٰ کی جانب سے احد کے میدان میں، کفار کے ہجوم میں گھرے خیر البشر حضرت محمد (ص) کی مدد کے لیے بھیجی گئی فتح کی نوید سے ہوا تھا۔
 

حسان خان

لائبریرین
اگر فرهاد و شیرین هر دو در دوران من بودی
یکی شرمنده از من، آن یک از جانان من بودی
(علی شیر نوایی)
اگر فرہاد اور شیریں دونوں میرے زمانے میں ہوتے، تو اُن میں سے ایک (فرہاد) مجھے دیکھ کر شرمندہ ہوتا جبکہ دوسرا (شیریں) میرے محبوب کو دیکھ کر شرمندہ ہو جاتا۔

ز پیر میکده فیضی که می‌رسد سویم
به شیخ شهر ندیدم، دروغ چون گویم؟
(علی شیر نوایی)
میں جھوٹ کیوں کہوں، کہ جو فیض مجھے پیرِ میکدہ سے حاصل ہوتا ہے، وہ میں نے شیخِ شہر کی صحبت میں نہیں دیکھا۔

مخوان ز دیر سوی کعبه‌ام، برای خدا
چرا به کعبه روم، چون به دیر با اویم؟
(علی شیر نوایی)
مجھے خدا کے لیے دیر سے کعبے کی طرف مت بلاؤ۔ میں کعبہ کیوں جاؤں، جب دیر میں ہی خدا کے ساتھ ہوں؟
 

حسان خان

لائبریرین
جام و سبو شکسته‌ام ای مرگ مهلتی
تا توبه‌ای که کرده‌ام آن نیز بشکنم
(قاضی یحییٰ نوربخشی)

جام و سبو تو توڑ چکا ہوں، لیکن اے موت! مجھے تھوڑی مہلت دے تاکہ میں نے جو توبہ کی تھی اُسے بھی توڑ ڈالوں۔
 

حسان خان

لائبریرین
از مرگ نباشد اہلِ دل را آزار
کز خواب نترسد چو بوَد دل بیدار
گر جانِ تو جسم را بینداخت چہ شد؟
چوں کہنہ شود پوست بیندازد مار
(شہزادہ دارا شکوہ)

اہلِ دل کو موت سے کسی قسم کی پریشانی نہیں ہوتی، کیونکہ جن کے دل بیدار ہوں وہ نیند سے نہیں ڈرا کرتے۔ اگر تمہاری جان نے جسم کو اتار کر پھینک دیا تو کیا ہوا؟ سانپ کی بھی جب کینچلی پرانی ہو جائے تو وہ اتار کر پھینک دیتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
ملک را گر نظر بر قدِ آں سروِ رواں افتد
سراسیمہ چو مرغِ تیر خوردہ ز آسماں افتد
(فضولی)
اگر فرشتے کی نظر اُس سروِ رواں کے قد پر پڑ جائے تو وہ ایسے سراسیمہ ہو کر آسمان سے گر پڑے جیسے ایک تیر خوردہ پرندہ آسمان سے گرتا ہے۔

غبارے کآں مقیم درگہت تا شد نمی خواہد
کہ گردد آدم و زاں روضۂ رضواں بروں آید
(فضولی)
جس مٹی کا تمہاری درگاہ پر قیام ہو جاتا ہے، وہ پھر اس کی خواہش نہیں کرتی کہ وہ انسان میں تبدیل ہو کر اس روضۂ رضواں سے باہر آ جائے۔
 

حسان خان

لائبریرین
آن کاف و نون که اصلِ وجود است خلق را
کافِ کمال و نونِ نوالِ محمد است


مدّی که بر سرِ الفِ آدم است تاج
مضمونِ میم و معنیِ دالِ محمد است

(محمد فضولی بغدادی)

وہ کاف اور نون (کُن) جو جملہ مخلوقات کے وجود کی اصل ہے، وہ [در حقیقت] حضرتِ محمد (ص) کے کمال کی کاف اور اّن کے نوال (یعنی بخشش) کی نون ہے۔
وہ مد جو آدم کے الف پر تاج کی طرح موجود ہے، وہ [در اصل] حضرتِ محمد (ص) کے میم کا مضمون اور اُن کے دال کا معنی ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
رغبت نزهتگهٔ میخانه از زاهد مجو
جغد را در طبع میل منزل آباد نیست
(فضولی)
میخانے جیسی عشرت گاہوں کی رغبت کو زاہد میں تلاش مت کرو کیونکہ الو کی طبعیت میں آباد منزل کی رغبت نہیں ہوا کرتی۔
 

حسان خان

لائبریرین
کاف و لام و زی و ری و دالِ من
کی کند یا رب نظر بر حالِ من
(منیری)
یا رب! میرا کاف، لام، زے، رے اور دال (گلِ زرد) کب میرے حال پر نظر کرے گا؟
 
زبانِ یارِ من ترکی و من ترکی نمی دانم
چہ خوش بودے اگر بودے زبانش در دہانِ من

میرے یار کی زبان ترکی ہے اور میں ترکی نہیں جانتا، کیا ہی اچھا ہو اگر اسکی زبان میرے منہ میں ہو۔
 
خشتِ اول چوں نہد معمار کج
تاثریّا می رود دیوار کج
یعنی تعمیر کرنے والا اگر پہلی اینٹ ہی ٹیڑھی رکھ دے تو یہ دیوار ثریّا(تارے) کی بلندی کو ہی کیوں نہ پہنچ جائے، ٹیڑھی ہی کھڑی ہوگی
 
Top