معاصر افغانستانی شاعرہ شکیبا شمیم کی ایک غزل:
مصلحت نیست چنین بر سرِ من داد مزن
زندگی ؛ بر سرِ من این همه فریاد مزن
من که آباد ترین خانهیِ غمهای توام
سنگ بر شیشهیِ این خانهیِ آباد مزن
مصلحت نیست که از گریهیِ من شاد شوی
خنده بر گریهیِ یک آدمِ ناشاد مزن
خونِ دل خورده و معتاد به خوردن شدهام
طعنه بر خوردنِ بیچارهیِ معتاد مزن
سجدهگاه است گواهِ سرِ افگنده به خاک
خاک بر این سرِ افگندهیِ سجاد مزن
هر نفس مردن و پس زنده شدن سخت بُوَد
دست بر زخمِ دلِ کودکِ نوزاد مزن
زندگی ؛ بارِ من و دوشِ تو افتیده بههم
بارم از دوشِ گرانِ تو بیفتاد، مزن
ذوب شد آهنِ دل ، کوره دگر داغ مکن
شعلهای باز در این سوخته فولاد مزن
رفته از یاد مرا درسِ پریروز همه
گنهم نیست مگر لطف کن استاد مزن
(شکیبا شمیم)
ترجمه:
مصلحت نہیں ہے، ایسے میرے سر پر فریاد مت کر! اے زندگی! میرے اوپر یہ سب فریاد مت کر!
میں کہ تیرے غموں کا آبادترین گھر ہوں، اس آباد گھر کے شیشے پر سنگ (پتھر) مت مار!
مصلحت نہیں ہے کہ میرے گریہ سے خوش ہوجا، ایک ناخوش آدمی کے گریہ پر مت ہنس!
خونِ دل پیا اور پینے کی عادی ہوگئی ہوں، بےچارے عادی کے کھانے پرطعنہ مت مار!
خاک پر پڑے سر کا گواہ سجدہ گاہ ہے۔ سجدہکننده کے اس سر پر خاک مت مار!
ہر نَفَس مرنا اور پھر زندہ ہوجانا سخت ہوتا ہے۔ نوزاد (نئے پیدا ہوئے بچے) کے زخمِ دل پر ہاتھ مت مار!
زندگی! میرا بار (بوجھ) اور تیرا دوش (کندھا) آپس میں ملے تھے، میرا بوجھ تیرے دوشِ گراں سے گرگیا، مت مار!
آہنِ دل پگھل گیا، کورہ (بھٹی) مزید داغ مت کر! اس سوختہ فولاد میں پھر شعلہ مت جلا!
مجھے پرسوں کا درس سب بھول گیا۔ میرا گناہ نہیں ہے مگر مہربانی کر اے استاد! مت مار!
داغ کردن = آہن (لوہے) کو آتش میں گرم کر کے سرخ کرنا۔