حسان خان

لائبریرین
(رباعی)
فصاد، به قصدِ آنکه بردارد خون
می‌خواست که نشتری زند بر مجنون
مجنون بگریست، گفت: زان می‌ترسم
کاید ز دلِ خود غمِ لیلی بیرون
(شیخ بهایی)


فصّاد = وہ شخص جو علاج کی غرض سے رگ سے فاسد خون نکالتا ہے۔
ترجمہ: فصاد نے خون نکالنے کے ارادے سے جب چاہا کہ مجنوں کو نشتر لگائے تو مجنوں رونے لگا اور اُس نے کہا کہ میں اس بات سے ڈرتا ہوں کہ کہیں خون کے ہمراہ میرے دل سے لیلیٰ کا غم بھی باہر نہ آ جائے۔
 
آخری تدوین:

احمد بلال

محفلین
تشنہ لب بر ساحلِ دریا زغیرت جاں دہم
گر بہ موج افتد، گمانِ چینِ پیشانی مرا
(غالب)
"اگر میں پیاسا سمندر پہ جاؤں اور اس کی لہروں کو دیکھ کر مجھے یہ گمان ہو کہ اس کے ماتھے پر شکن پڑی ہے تو میں پیاسا مر جانا گوارا کروں گا"
 

عمراعظم

محفلین
کی رفتہ ای ز دل کہ تمنا کنم ترا
کی بودہ ای نہفتہ کہ پیدا کنم ترا
غیبت نکردہ ای کہ شوم طالبِ حضور
پنہاں نگشتہ ای کہ کہ ہویدا کنم ترا

ترجمہ:
کب دل سے دور تھا کہ تمنا کروں تجھے
کب آنکھ سے تھا اوجھل کہ ڈھونڈا کروں تجھے
تو گُم نہیں ہوا تھا کہ کروں تیری جستجو
تو کب چھُپا ہوا تھا کہ ہویدا کروں تجھے
 

محمد وارث

لائبریرین
دیدہ ام دفترِ پیمانِ وفا حرف بہ حرف
نامِ خوباں ہمہ ثبت است مگر نامِ تو نیست


نظیری نیشاپوری

میں نے وفا کرنے کے وعدوں کے سارے دفتر (رجسٹر/اوراق) حرف بہ حرف دیکھ لیے ہیں، سارے دوسرے محبوبوں کے نام لکھے ہوئے ہیں لیکن تیرا نام ان میں نہیں ہے۔
https://www.facebook.com/photo.php?...41828.254438858040106&type=1&relevant_count=1
 

حسان خان

لائبریرین
هر گه ز من حدیثی، آن دلنواز پرسد
عمداً کنم تغافل، شاید که باز پرسد

(واقفی مشهدی)

جب بھی وہ دلنواز محبوب مجھ سے کوئی بات پوچھتا ہے تو میں جان بوجھ کر تغافل برتتا ہوں کہ شاید وہ دوبارہ پوچھے۔
 
آخری تدوین:

عمراعظم

محفلین
واعظی پُرسیداز فرزندِ خویش
ھیچ می دانی مسلمانی بہ چیست؟
صِدق و بے آزاری و خدمت بہ خلق
ہم عبادت ہم کلیدِ زندگیست

گفت: زین معیاراندر شہر ھا
یک مسلماں ھست آن ہم آرمینیست

شاعرہ :خانم پروین اعتصامی

ترجمہ : ایک واعظ نے اپنے بیٹے سے پوچھا
جانتے ہو مسلمانی کیا ہے؟
سچائی،بے آزاری (کسی کو پریشان نہ کرنا)اور خلق کی خدمت
ہے عبادت اور زندگی کی چابی (کامیابی)بھی

بیٹے نے کہا : اس معیار پر تو ہمارے شہر میں
بس ایک ہی مسلمان ہے اور وہ بھی مسیحی ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
واعظی پُرسیداز فرزندِ خویش
ھیچ می دانی مسلمانی بہ چیست؟
صِدق و بے آزاری و خدمت بہ خلق
ہم عبادت ہم کلیدِ زندگیست

گفت: زین معیاراندر شہر ھا
یک مسلماں ھست آن ہم آرمینیست

شاعرہ :خانم پروین اعتصامی

ترجمہ : ایک واعظ نے اپنے بیٹے سے پوچھا
جانتے ہو مسلمانی کیا ہے؟
سچائی،بے آزاری (کسی کو پریشان نہ کرنا)اور خلق کی خدمت
ہے عبادت اور زندگی کی چابی (کامیابی)بھی

بیٹے نے کہا : اس معیار پر تو ہمارے شہر میں
بس ایک ہی مسلمان ہے اور وہ بھی مسیحی ہے۔
سبحان اللہ۔ کیا بات کہی
 

حسان خان

لائبریرین
چنان با غیر کردی آشنایی
که بی او در خیالِ من نیایی

(نوری لاری)
تم نے غیر سے اتنی آشنائی کر لی ہے کہ اُس کے بغیر میرے خیالوں میں بھی نہیں آتے۔

شاد می‌خواهم به یادش خاطرِ محزون کنم
بی‌رقیب آن مه ‌نمی‌آید به یادم چون کنم؟

(طایر شیرازی)
میں اُس کی یاد سے اپنی خاطرِ محزوں کو شاد کرنا چاہتا ہوں لیکن کیا کروں کہ وہ ماہ رُو میری یادوں میں رقیب کے (خیال کے) بغیر نہیں آتا۔
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
یار در چشم و دیدنش مشکل
راہ نزدیک و طے شدن دشوار
میر شمس الدین فقیر دہلوی
یار بستا تو آنکھوں میں ہے لیکن اسے دیکھنا مشکل ہے، راستہ تو نزدیک اور تھوڑا ہی سا ہے لیکن طے کرنا دشوار ہے۔(فیس بک)
 

عمراعظم

محفلین
کیا ۔آرمینیست۔کا ترجمہ مسیحی ہے ؟
محترم سید عاطف علی صاحب!
جی یقینا" آرمینیست کا ترجمہ مسیحی نہیں ہےبلکہ آرمینیست ایک جُڑا ہوا لفظ ہےاور دراصل یہ لفظ "ارمنی است" ہے ۔ایران میں ارمنی ،ارمانیا (Armania)کے رہنے والوں کو کہا جاتا ہے۔اس لفظ کا ترجمہ مسیحی کرنے کا مقصد دراصل مندرجہ بالا اشعار کے پس منظر کو قابلِ فہم بنانے کی کوشش تھی۔ مجھ کم عقل و کم فہم کی سمجھ میں یہ آیا ہے کہ شاعری میں ہر لفظ کا لفظی ترجمہ کرنے سے اس کا مفہوم و مطلب بیان نہیں ہوتا۔
شاعرہ خانم پروین اعتصا می 1907 میں پیدا ہوئیں اور 1941میں وفات پا گئیں۔
ارمانیا گزشتہ ادوار میں مسیحیت کا مرکز تھا۔ ترک سلجو قیوں کے زمانے میں اس ملک پر حملے کے نتیجے میں بہت سے مسیحی غلام اور لونڈیوں کی شکل میں ایران اور مصر لائے گئے۔عثمانیوں کا دور بھی اس ملک کی تاریک داستان رقم کر گیا۔آج بھی ایران میں ان لوگوں کی تعداد تقریبا" 120000کے لگ بھگ ہے۔یہ لوگ زیادہ تر تہران،اصفہان اور تبریز میں مقیم ہیں اور اب بھی مسیحیت پر ہی قائم ہیں نیز دیانتداری،امانت داری اور سچ بولنے میں شہرت رکھتے ہیں۔اسی لئے عام لوگ ان سے معاملات کرنے میں عام مسلمانوں کی نسبت ترجیح دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ترجمہ کو عام فہم بنانے کے لئے لفظ ارمنیست کا ترجمہ مسیحی کیا گیا جو ان اشعار کے پس منظر کے مطابق ہے۔
باقی جو مزاجِ یار میں آئے !!!
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
محترم سید عاطف علی صاحب!
جی یقینا" آرمینیست کا ترجمہ مسیحی نہیں ہےبلکہ آرمینیست ایک جُڑا ہوا لفظ ہےاور دراصل یہ لفظ "ارمنی است" ہے ۔ایران میں ارمنی ،ارمانیا (Armania)کے رہنے والوں کو کہا جاتا ہے۔اس لفظ کا ترجمہ مسیحی کرنے کا مقصد دراصل مندرجہ بالا اشعار کے پس منظر کو قابلِ فہم بنانے کی کوشش تھی۔ مجھ کم عقل و کم فہم کی سمجھ میں یہ آیا ہے کہ شاعری میں ہر لفظ کا لفظی ترجمہ کرنے سے اس کا مفہوم و مطلب بیان نہیں ہوتا۔
شاعرہ خانم پروین اعتصا می 1907 میں پیدا ہوئیں اور 1941میں وفات پا گئیں۔
ارمانیا گزشتہ ادوار میں مسیحیت کا مرکز تھا۔ ترک سلجو قیوں کے زمانے میں اس ملک پر حملے کے نتیجے میں بہت سے مسیحی غلام اور لونڈیوں کی شکل میں ایران اور مصر لائے گئے۔عثمانیوں کا دور بھی اس ملک کی تاریک داستان رقم کر گیا۔آج بھی ایران میں ان لوگوں کی تعداد تقریبا" 120000کے لگ بھگ ہے۔یہ لوگ زیادہ تر تہران،اصفہان اور تبریز میں مقیم ہیں اور اب بھی مسیحیت پر ہی قائم ہیں نیز دیانتداری،امانت داری اور سچ بولنے میں شہرت رکھتے ہیں۔اسی لئے عام لوگ ان سے معاملات کرنے میں عام مسلمانوں کی نسبت ترجیح دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ترجمہ کو عام فہم بنانے کے لئے لفظ ارمنیست کا ترجمہ مسیحی کیا گیا جو ان اشعار کے پس منظر کے مطابق ہے۔
باقی جو مزاجِ یار میں آئے !!!
عمر اعظم
بھائی۔۔مجھے بھی یہی وجہ سمجھ میں آئی تھی۔ البتہ یاد نہیں کس حوالے سے۔۔۔اور غالباً یہ لوگ شام کچھ علاقوں میں اور اور دوسرے علاقوں میں بھی بستے ہیں۔ شاید قدیم وقتوں میں مسیحیت اس علاقے کا سرکاری مذہب تھا۔
 

احمد بلال

محفلین
در دام، بہرِ دانہ نیفتم مگر قفس
چنداں کنی بلند کہ تا آشیاں رسد
"میں دانے کے لیے جال میں پھنسنے کا نہیں، ہاں سوائے اس حالت کے کہ تو قفس کو اتنا بلند کر دے کہ وہ میرے آشانے تک جا پہنچے"
(غالب)
 

محمد وارث

لائبریرین
ز من بہ جرمِ طپیدن کنارہ می کردی
بیا بہ خاکِ من و آرمیدنم بنگر

مرزا غالب دہلوی

میری بیقراری و بے چینی و اضطراب و تڑپ کے جرم کی وجہ سے تُو نے مجھ سے کنارہ کشی کر لی تھی سو اب میری خاک پر آ اور میرا آرام کرنا دیکھ یعنی موت نے سب بے قراریاں ختم کر دیں اب تو کنارہ کش نہ رہ۔
 

حسان خان

لائبریرین
آن چشمِ سیه را نبوَد حاجتِ سرمه
در سوگِ شهیدانِ غمش گشته سیه‌پوش

(امیر علی‌شیر نوایی)

اُس چشمِ سیاہ کو خوبصورتی کے لیے سرمے کی حاجت تھوڑی ہے بلکہ وہ تو صرف اپنے غم میں شہید ہونے والوں کے سوگ میں سیاہ پوش ہوئی ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
شدی مشهورِ شهر آن سان که همچون سورهٔ یوسف
همی‌خوانند طفلان قصهٔ حسنت به مکتب‌ها

(عبدالرحمن جامی)

تم شہر میں اس طرح مشہور ہو گئے ہو کہ مکاتب میں بچے تمہارے حُسن کے قصے کو سورهٔ یوسف کی طرح پڑھتے ہیں۔
 
آخری تدوین:
Top