حسان خان

لائبریرین
(رباعی)
هر روز به شیوه‌ای و لطفی دگری
چندانکه نگه می‌کنمت خوبتری
گفتم که به قاضی برمت تا دلِ خویش
بستانم و ترسم دلِ قاضی ببری

(سعدی شیرازی)

تم ہر روز نئے ناز اور لطف کے ساتھ جلوہ گر ہوتے ہو؛ میں تمہیں جتنی بار بھی دیکھوں تم پہلے سے خوب تر نظر آتے ہو؛ میں نے کہا تھا کہ تمہیں قاضی کے پاس لے جاؤں تاکہ اپنا دل تم سے واپس حاصل کر لوں لیکن ڈرتا ہوں کہ تم قاضی کا دل چرا لو گے۔

غمِ راهی نشاط آمیزتر کن
فغانش را جنون انگیزتر کن
بگیر ای ساربان راهِ درازی
مرا سوزِ جدایی تیزتر کن

(علامه اقبال)
مسافر کے غم کو مزید نشاط آمیز کر دو؛ اُس کی فریاد کو مزید جنون انگیز کر دو؛ اے سارباں، (منزل تک پہنچانے کے لیے) کوئی طویل راہ اختیار کرو اور میری جدائی کی سوزش کو مزید تیز کر دو۔

(رباعی)
گفتی که: "بیا که باغ خندید و بهار
شمعست و شراب و شاهدانِ چو نگار"
آنجا که تو نیستی از اینهام چه سود؟
و آنجا که تو هستی خود از اینها به چه کار؟

(مولانا جلال الدین رومی)

تم نے کہا: "آ جاؤ کہ باغ کِھل گئے ہیں اور بہار مسکرانے لگی ہے؛ نیز یہاں شمع، شراب اور بتوں جیسے خوب رو محبوب موجود ہیں"۔۔۔ (لیکن یہ تو بتاؤ کہ) جس جگہ پر تم موجود نہ ہو وہاں ان سب سے مجھے کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے؟ اور جس جگہ پر تم خود موجود ہو وہاں یہ سب چیزیں پھر کس کام کی؟

(رباعی)
مه را ز فلک به طرفِ بام آوردن
وز روم، کلیسیا به شام آوردن
در وقتِ سحر نمازِ شام آوردن
بتوان، نتوان تو را به دام آوردن

(سعدی شیرازی)

چاند کو آسمان سے اتار کر چھت کی طرف لانا، روم سے کلیسا کو ملکِ شام لے آنا، اور صبح کے وقت مغرب کی نماز پڑھنا۔۔۔ یہ سب کام ممکن ہیں لیکن تمہیں جال میں پھنسانا ممکن نہیں ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
(رباعی)
از بهرِ هلالِ عید آن مه ناگاه
بر بام دوید و هر طرف کرد نگاه
هر کس که بدید گفت سبحان الله
خورشید برآمدست و می‌جوید ماه
(انوری ابیوردی)

ہلالِ عید (کی رویت) کے لیے وہ چاند (جیسا محبوب) اچانک چھت پر دوڑا آیا اور ہر طرف نگاہ کرنے لگا۔ جس کسی نے بھی (یہ منظر) دیکھا اس نے کہا کہ سبحان اللہ! خورشید طلوع ہو گیا ہے اور چاند ڈھونڈ رہا ہے۔

تغافل‌های او در بزمِ غیرم کشته بود امشب
نبودش سوی من هاتف گر آن دزدیده دیدن‌ها
(هاتف اصفهانی)

اے ہاتف! اگر اُس نے میری جانب چوری چھپے نظریں نہ ڈالی ہوتیں تو مجھے تو آج رات غیر کی بزم میں اُس کے تغافل نے مار ہی ڈالا تھا۔

(رباعی)
دردا که فراق ناتوان ساخت مرا
در بسترِ ناتوانی انداخت مرا
از ضعف چنان شدم که بر بالینم
صد بار اجل آمد و نشناخت مرا
(شوقی تبریزی)

افسوس کہ جدائی نے مجھے ناتواں کر دیا اور مجھے ناتوانی کے بستر پر پھینک دیا۔۔۔ میں (جدائی کے باعث) کمزوری سے ایسا ہو گیا ہوں کہ میرے سرہانے سو بار موت آئی لیکن مجھے پہچان نہ سکی۔

به جرمِ عشقِ توام می‌کُشند و غوغایی‌ست
تو نیز بر لبِ بام آ که خوش تماشایی‌ست
(میرزا عبدالرحیم خانِ خانان)

لوگ مجھے تیرے عشق کے جرم میں قتل کر رہے ہیں اور ہنگامہ برپا ہے؛ تو بھی (نظارے کے لیے) چھت کے کنارے پر آ کہ بڑا ہی اچھا تماشا ہے۔
یہ شعر میر حیدر ذہنی کاشی سے بھی منسوب ہے۔

(فلسطینیوں کے نام رباعی)
یک قطره ز آب دیدهٔ مظلومی
یک آه ز سوز سینهٔ محرومی
آن قطره شود سیل بسی شهر برد
وان آه شود آتش و سوزد رومی
(اوحدالدین کرمانی)

کسی مظلوم کے اشکوں سے ایک قطرہ۔۔۔ کسی محروم کے سینے کی جلن سے ایک آہ۔۔۔ وہ قطرہ سیلاب بن جاتا ہے اور بہت سارے شہر بہا کر لے جاتا ہے۔۔۔ اور وہ آہ آگ بن جاتی ہے اور روم جیسے کسی شہر کو جلا ڈالتی ہے۔۔۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
کفر اگر مانعِ گفتن نشدی، می‌گفتم
که ترا نیز چو معبودِ تو همتایی نیست
(صبحی بروجردی)


اگر کفر کا احتمال یہ بات کہنے پر مانع نہ ہوتا تو میں کہہ ڈالتا کہ تمہارے معبود کی طرح تمہارا بھی کوئی ہمتا نہیں ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
بر سرِ کوی تو غوغای قیامت می‌بود
گر شکستِ دلِ عشاق صدایی می‌داشت
(صائب تبریزی)

اگر عاشقوں کے دل کے ٹوٹنے کی کوئی صدا ہوتی تو تیرے کوچے میں قیامت کا شور و غل برپا ہوتا۔
 

حسان خان

لائبریرین
دربارِ ہند اور دربارِ ایران کے مابین ادبی نوک جھونک

اکبر کے دربار میں ایران سے ایک سفیر آیا اور اُس نے دربار میں شاہ عباس صفوی کی بھیجی یہ رباعی پڑھی:
زنگی به سپاه و خیل و لشکر نازد
رومی به سنان و تیغ و خنجر نازد
اکبر به خزینهٔ پر از زر نازد
عباس به ذوالفقارِ حیدر نازد

(حبشی اپنے سپاہیوں اور لشکر پر ناز کرتا ہے؛ رومی اپنے نیزے، تلوار اور خنجر پر ناز کرتا ہے؛ اکبر اپنے زر سے بھرے خزانے پر ناز کرتا ہے؛ جبکہ عباس ذوالفقارِ حیدر پر ناز کرتا ہے۔۔۔ یہاں شاہ عباس صفوی اور حضرت عباس بن علی دونوں کو مراد لیا جا سکتا ہے۔)
اکبر نے یہ سن کر اپنے درباری شاعر فیضی کی طرف دیکھا، جس نے فی البدیہہ یہ جوابی رباعی پڑھی:
فردوس به سلسبیل و کوثر نازد
دریا به گهر فلک به اختر نازد
عباس به ذوالفقارِ حیدر نازد
کونین به ذاتِ پاکِ اکبر نازد

(جنت الفردوس سلسبیل و کوثر پر ناز کرتی ہے؛ دریا موتی پر اور فلک ستارے پر ناز کرتا ہے؛ عباس ذوالفقارِ حیدر پر ناز کرتا ہے؛ لیکن دونوں عالم اکبر کی ذاتِ پاک پر ناز کرتے ہیں۔۔۔ یہ آخری مصرع ذو معنی ہے اور یہاں شہنشاہ اکبر اور خدائے اکبر دونوں مراد ہو سکتے ہیں۔)
 

محمد وارث

لائبریرین
گماں مبر کہ تو چوں بگذری جہاں بگذشت
ہزار شمع بکشتند و انجمن باقیست


عرفی شیرازی

یہ خیال نہ کر کہ تو گذر گیا تو دنیا بھی ختم ہو جائے گی کہ یہاں ہزاروں شمعیں بجھا دی گئی ہیں اور انجمن ابھی بھی باقی ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
ای دل بکام خویش جہان را تو دیده گیر
در وی ہزار سال چو نوح آرمیده گیر
اے دل تو ار اس دنیا میں مثل نوح (ع) اگر ہزار سال رہنے کا موقع بھی پائے تو اپنےہی کام سے کام رکھ۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
چہ سود از گریۂ شبہا، شگفتن نیست در صبحم
گُلِ پژمردہ ہرگز تازہ از شبنم نمی گردد


مُلا نورالدین ظہوری ترشیزی

راتوں کو رونے کا کیا فائدہ کہ اس سے میری صبحوں میں شگفتگی نہیں ہوتی جیسے کہ مرجھایا ہوا پھول شبنم سے ہرگز تازہ نہیں ہوتا۔
 

طارق حیات

محفلین
10295781_725224877521101_350378100496768348_n.jpg
 

طارق حیات

محفلین
حمد محبوبی کہ ذکرش دلکشا است
باعث تفریح طبع و جانفزا است

Praise be to the Lord, whose Zikr is most absorbing and satisfying and peaceful for the soul

حمد اُس مالک کی جس کا ذکر دلوں کا گرمانے والا، مطمئن کرنے والا، اور روح کو آرام و سکوں دینے والا ہے۔

۔۔۔۔ حضرت صوفی فقیر قادر بخش بیدلؒ
(مثنویٰ دلکشا ’’فارسی‘‘)
 

طارق حیات

محفلین
بکوش اے سالک رہ رو کہ تا گردی ز خود فارغ
چواز خودرستہ گردی باشی از ہر نیک و بد
چو خورشید جلوہ گر دو بچشم جان
با حدیّت رسی باشی ز ایہام عدد فارغ

(حضرت صوفی فقیرقادر بخش بیدلؒ)

ترجمہ: اے سالک، کوشش کر اور سیدھا راستہ چل تاکہ تم اپنے آپ سے فارغ ہوجاؤ۔ جب تم اپنے آپ سے چھوٹ جاؤ گے تو نیک و بد سے فارغ ہوجاؤگے۔ جب زندگی کی آنکھ میں حقیقت کا سورج جلوہ دکھائےگا تو تم احدیت تک پہنچ جاؤگے اور تعداد کے وہم سے فارغ ہوجاؤگے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
عجب نیست در خاک اگر گُل شگفت
کہ چندیں گُل اندام در خاک خُفت


شیخ سعدی شیرازی

اگر خاک میں سے پُھول کھلتے ہیں تو یہ کوئی عجیب بات نہیں ہے کیونکہ بہت سے گُل اندام اِسی خاک میں سوئے ہوئے ہیں۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین

عجب نیست در خاک اگر گل شگفت
کہ چندیں گل اندام در خاک خُفت

شیخ سعدی شیرازی
اگر خاک میں سے پُھول کھلتے ہیں تو یہ کوئی عجیب بات نہیں ہے کیونکہ بہت سے گُل اندام اِسی خاک میں سوئے ہوئے ہیں۔
سب کہاں؟ کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں
غالب۔
 

حسان خان

لائبریرین
تا چند گردِ کوی تو گردم، گهی بپرس
کاینجا چه می‌کنی و طلبکارِ کیستی؟

(عبدالرحمٰن جامی)
میں کب تک تمہاری گلی کے آس پاس گھومتا رہوں؟۔۔۔ کبھی یہ تو پوچھو کہ تم یہاں کیا کر رہے ہو اور کس کے آرزومند ہو؟

چون به گیتی هر چه می آید، روان خواهد گذشت
خرم آن کس کو نکو نام از جهان خواهد گذشت

(امیر خسرو)
چونکہ دنیا میں جو کچھ بھی آتا ہے وہ جلد ہی گذر جائے گا، لہٰذا اُس شخص پر آفریں کہ جو اس جہاں سے نیک نامی کے ساتھ گذرے گا۔

آن عقوبت‌ها که در روزِ قیامت گفته‌اند
اندرین شب‌های غم بر من کنون خواهد گذشت

(امیر خسرو)
لوگوں نے جن عذابوں کے متعلق کہا ہے کہ وہ قیامت کے روز دیکھنے پڑیں گے، وہ عذاب مجھ پر ان غم کی راتوں میں موجودہ زمانے ہی میں گذر جائیں گے۔

درخورِ شادی کجا باشد دلِ بشکستهٔ من
می نشاید ریختن هرگز به مینای شکسته

(رنجی تهرانی)
میرا ٹوٹا ہوا دل خوشیوں کے لائق کیسے ہو سکتا ہے؟ ٹوٹی ہوئی صراحی میں شراب انڈیلنا ہرگز مناسب نہیں ہے۔

ز آب و آتش چون خلیل و نوح رنجی غم ندارم
ترسم از سیلابِ اشک و آهِ دل‌های شکسته

(رنجی تهرانی)
اے رنجی! مجھے خلیل اور نوح کی طرح آگ اور پانی سے کوئی غم نہیں ہے؛ مجھے تو اشکوں کے سیلاب اور ٹوٹے ہوئے دلوں کی آہ سے ڈر لگتا ہے۔

این تپش‌های دلِ دریا صفت بیهوده نیست
قلزمِ ما راست جزر و مد ز ماهِ خویشتن

(کیومرث وثوقی 'روشن')
ہمارے سمندر جیسے دل کی یہ لرزشیں اور اضطراب بلاوجہ نہیں ہیں؛ ہمارے سمندر میں اتار چڑھاؤ اپنے چاند (جیسے محبوب) کی وجہ سے ہے۔

در قید چه داری به ستم؟ صید رها کن
او خود، به کمندِ تو درآید، به ارادت

(سلمان ساوجی)
تم نے اپنے شکار کو جبراً قید میں کیوں رکھا ہوا ہے؟ اُسے رہا کر دو۔۔۔۔ وہ خود اپنے ارادے سے تمہاری کمند میں چلا آئے گا۔

گر تو هم با چشمِ من بینی نگاهِ خویشتن
می‌شوی مفتونِ چشمانِ سیاهِ خویشتن

(کیومرث وثوقی 'روشن')
اگر تم بھی میری آنکھ سے اپنی نگاہ کو دیکھ لو تو اپنی سیاہ آنکھوں کے دیوانے ہو جاؤ گے۔

عاشق آنست که بی خویشتن از ذوقِ سماع
پیشِ شمشیرِ بلا رقص کنان می‌آید

(سعدی شیرازی)
عاشق وہ شخص ہے جو بے خود ہو کر وجد و سرور کے ذوق سے بلاؤں کی تلوار کے سامنے رقص کرتا ہوا آتا ہے۔

میر اگر این است جوشِ گریه در هجرانِ یار
ابر خواهد بُرد آب از دیدهٔ گریانِ ما

(میر تقی میر)
اے میر! اگر یار کے فراق میں جوشِ گریہ ایسا ہی رہا تو بادل ہماری روتی آنکھ سے پانی لے کر جائے گا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
تو مرا جان و جہانی، چہ کنم جان و جہاں را
تو مرا گنجِ روانی، چہ کنم سود و زیاں را


مولانا رُومی

بس تُو ہی میری جان ہے، تُو ہی میرا جہان ہے، مجھے جان اور جہان کی کیا فکر۔ تُو ہی میرا بیش بہا خزانہ ہے جو ہر وقت میرے ساتھ ہے، مجھے سود و زیاں کی کیا پروا۔
 

طارق حیات

محفلین
احمقاں سرور شدستند و زبیم --- عاقلاں سرہا کشیدہ در گلیم

احمق لوگ سردار بن گئے اور (ان کے شر و فساد کے) خوف سے عقلمند لوگوں نے کمبل میں سر چھپا لیا۔

(حضرت مولانا جلال الدین رومیؒ)
مثنویٰ معنویٰ، دفتر چہارم، حصہ اول
 

طارق حیات

محفلین
حافظؔ از دست مدہ صحبت آں کشتی نوح - ورنہ طوفان حوادث ببرد بنیادت
ترجمه:
اے حافظؔ! اس نوحؑ کی کشتی کی تو ہرگز صحبت نہ چھوڑنا اس کی مصاحبت ترک نہ کرنا ورنہ حادثات و انقلابات کا یہ ہولناک طوفان تجھے تیری بنیاد سمیت اکھاڑ پھینکے گا۔

حضرت حافظ شیرازیؔ
 

طارق حیات

محفلین
لطیفہ ایست نہانی کہ عشق ازو خیزد - کہ نام آں نہ لب لعل و خط زنگاریست

جس سے عشق وجود میں آتا ہے وہ ایک پُراسرار لطیفہ ہے۔ یہ کوئی وہ چیز نہیں ہے جیسے عام لوگ لب لعل یا معشوقوں کا خطِ سبز کہتے ہیں (یعنیٰ مرکز عشق محبوب کا حسن نہیں ہے۔)

حضرت حافظ شیرازی
 

محمد وارث

لائبریرین
چندیں ہزار شیشۂ دل را بر سنگ زد
افسانہ ایست ایں کہ دلِ یار نازک است

صائب تبریزی

اُس نے تو ہزاروں شیشے جیسے دل پتھر پر دے مارے اور توڑ دیے، یہ بات کہ محبوب کا دل بڑا نازک ہے، افسانہ ہی ہے۔
 
Top