قدسی نداند چوں شود سودائے بازار جزا
او نقد آمرزش بکف، من جنس عصیاں در بغل
مجھے کچھ نہیں خبر (قدسی کو) کہ میدان محشر کی فکر کیوں لاحق ہے۔
(میں تو بس یہ جانتا ہوں) کہ میرے بغل میں عصیاں کی جنس ہوگی اور وہ اسے بخشش کی نقدی سے خرید لے گا۔
بس که چون منصور بر ما زندگانی تلخ شد
دارِ خون آشام را دارالامان پنداشتیم (صائب تبریزی)
منصور کی طرح ہم پر زندگی اتنی زیادہ تلخ ہو گئی کہ ہم خون پینے والے دار (سولی) کو دارالامان (امن و سلامتی کا گھر) سمجھنے لگے۔
[اول الذکر دار بمعنی 'سولی' فارسی کا لفظ ہے جبکہ ثانی الذکر دار بمعنی 'گھر، مسکن، جگہ' عربی الاصل ہے۔]
یا رب به زاهدان چه دهی خلد رایگان
جورِ بتان ندیده و دل خون نکرده کس (مرزا غالب دهلوی)
اے رب! زاہدوں کو جنت مفت میں کیوں دیتے ہو؟ ان میں سے کسی نے نہ تو بتوں کے مظالم دیکھے ہیں اور نہ ہی کسی نے اپنے دل کو خون کیا ہے۔
یا رب چه آفتی تو که مجنون به روزِ وصل
رویش به سوی لیلیٰ و چشمش به راهِ توست (وحید قزوینی)
خدا کی پناہ! تم کیسی آفت ہو کہ وصل کے دن مجنوں کا چہرہ تو لیلیٰ کی جانب ہے لیکن اُس کی آنکھیں تمہاری راہ دیکھ رہی ہیں۔
بلندی آن قدر جو ای برادر
که چون اُفتی توانی باز برخاست (میر نجات اصفهانی)
اے برادر! اُتنا ہی بلند ہونے کی کوشش کرو کہ جب گر جاؤ تو دوبارہ اٹھ سکو۔
منصور سر گذاشت در این راه و برنگشت
واعظ در این غم است کہ دستار میرود !
صائب
منصور تو (عشق کی راہ میں) سر سے بھی گزرگیا ۔
واعظ کو یہ فکر لاحق ہے کہ دستاربھی نہ جائے ۔
فکرِ مرهم بهرِ چاکِ سینهام چند ای طبیب
این جراحت یادگارِ شوخِ قتالِ من است (عبدالرحمٰن جامی)
اے طبیب! میرے سینے کے چاک کے لیے مرہم کی فکر کب تک (کرتے رہو گے)؟ یہ زخم تو میرے شوخِ قتّال کی یادگار ہے۔
[قتّال = بہت زیادہ قتل کرنے والا]
ما نداریم مشامی که توانیم شنید
ورنه هر دم وزد از گلشنِ وصلت نفحات (عبدالرحمٰن جامی)
ہم ہی ایسی ناک نہیں رکھتے کہ جس سے ہم درک کر سکیں ورنہ تمہارے وصل کے گلشن سے تو ہر دم خوش بوئیں چلتی رہتی ہیں۔
[شنیدن کا ایک ضمنی مطلب استشمام، سونگھنا، بو کا احساس کرنا، بو پانا، بو کرنا وغیرہ بھی ہے۔]
هر کس به دعا دفعِ بلا میکند از خود
یا رب چه بلایی تو که جویم به دعایت (عبدالرحمٰن جامی)
ہر کوئی دعا کے ذریعے اپنے آپ سے بلا کو دور کرتا ہے، لیکن خدا کی پناہ! تم کیسی بلا ہو کہ میں تمہیں دعا کے ذریعے ڈھونڈتا ہوں۔
جامی که به شمشیرِ ستم ریختیاش خون
جز دعویِ عشقِ تو ندانم چه گنه داشت (عبدالرحمٰن جامی)
جس جامی کا تم نے شمشیرِ ستم سے خون بہایا ہے، میں نہیں جانتا کہ اُس کا تمہارے عشق کے دعوے کے سوا کیا گناہ تھا۔
گشتم چنان ضعیف که بی ناله و فغان
ظاهر نمیشود که درین پیرهن یکیست (عبدالرحمٰن جامی)
میں اتنا ضعیف ہو گیا کہ نالہ و فغاں کے بغیر یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ اس پیرہن میں کوئی فرد بھی ہے۔
آنجا که لعلِ دلکشِ شیرین دهد فروغ
یاقوت و سنگ در نظرِ کوهکن یکیست (عبدالرحمٰن جامی)
جس جگہ پر شیرین کا دلکش لعل (یعنی لب) رونق دے رہا ہو وہاں کوہکن (یعنی فرہاد) کی نظر میں (قیمتی) یاقوت اور (عام) سنگ ایک ہی ہوتے ہیں۔
جامی درین چمن دهن از گفت و گو ببند
کاینجا نوای بلبل و صوتِ زغن یکیست (عبدالرحمٰن جامی)
اے جامی! اس چمن میں گفتگو کرنا بند کر دو کہ یہاں بلبل کی نوا اور چیل کی آواز ایک ہی حیثیت رکھتی ہیں۔
گر من نه غرقِ آتش و آبم ز عشقِ تو
این سینهٔ پرآتش و چشمِ پرآب چیست (عبدالرحمٰن جامی)
اگر میں تمہارے عشق کے باعث آتش و آب میں غرق نہیں ہوں تو (بتاؤ کہ پھر) یہ پُرآتش سینہ اور پُرآب آنکھ کیا ہیں؟
ز خونِ دل چه نویسم به لوحِ خاطرِ خویش
چو نیست از تو نهان آنچه در ضمیرِ من است (عبدالرحمٰن جامی)
جب میرے ضمیر میں جو کچھ بھی ہے وہ تم سے نہاں نہیں ہے تو پھر میں اپنی لوحِ خاطر پر خونِ دل سے کیا لکھوں؟
کشم به پیشِ تو جان لیک چون تو شاهی را
چه التفات بدین تحفهٔ حقیرِ من است (عبدالرحمٰن جامی)
میں تمہارے سامنے (اپنی) جان تو فدا کر دوں کہ لیکن تمہارے جیسے کسی شاہ کو میرے اس حقیر تحفے پر کیا التفات ہو سکتا ہے؟
[جان کشیدن = مردن، جان فدا کردن]
به خار و خس که در آن کوی شب نهم پهلو
چنان خوشم که مگر بسترِ حریرِ من است (عبدالرحمٰن جامی)
جس گھاس پھونس پر میں اُس (یار کے) کوچے میں رات کو لیٹتا ہوں، اُس کے ساتھ میں ایسا خوش ہوں کہ جیسے یہ میرا ریشمی بستر ہے۔
[پہلو نہادن = خوابیدن، دراز کشیدن]
بسوخت ز آتشِ دوری دلم ولی دارم
به این خیال تسلی که یار نزیک است (عبدالرحمٰن جامی)
دوری کی آگ سے میرا دل جل چکا ہے لیکن مجھے اس خیال سے تسلی ہے کہ یار نزدیک ہے۔
مکن کناره ز عاشق، که زود چیده شود
گلی که در نظرِ باغبان نمیباشد (صائب تبریزی)
(اپنے) عاشق سے کنارہ مت کرو، کیونکہ جو گُل باغبان کی نظروں میں نہیں ہوتا وہ جلد چُن لیا جاتا ہے۔
(رباعی) رفتم به سرِ تربتِ محمودِ غنی
گفتم که چه بردهای ز دنیای دنی؟
گفتا که دو گز زمین و ده گز کَرباس
تو نیز همین بری، اگر صد چو منی (بابا افضل الدین کاشانی)
میں ثروتمند محمود غزنوی کی قبر پر گیا اور میں نے پوچھا کہ (اِس) پست دنیا سے تم کیا لے کر گئے ہو؟ اُس نے (جواب میں) کہا کہ دو گز زمین اور دس گز کفن۔۔۔ اور تم بھی یہی لے کر جاؤ گے، خواہ تم میرے جیسے سو لوگوں کے برابر ہو جاؤ۔