mohsin ali razvi

محفلین
10409238_777351755658084_7629054972040331995_n.jpg
10801981_777354288991164_5638890700123428498_n.jpg
 

حسان خان

لائبریرین
هر چه رفت از عمر، یادِ آن به نیکی می‌کنند
چهرهٔ امروز در آیینهٔ فردا خوش است

(صائب تبریزی)

عمر کا جو بھی حصہ گذر گیا ہو، مردُم اُسے نیکی سے یاد کرتے ہیں؛ 'آج' کا چہرہ 'آنے والے کل' کے آئینے میں خوش نما نظر آتا ہے۔
 
آخری تدوین:

mohsin ali razvi

محفلین
عمر رفتے کو نہ یاد کر عامل
زندگی سخت تھی اب مشکل ھے
ھو فراخی مگر کیسے ملے قلب سرور
آئینے ٹوت جو جائے بنے شیشے ھزار
در گذر کر غموں سے بناو رستے
ھے یہ ھی کام تھماری عامل
عامل شیرازی
 

حسان خان

لائبریرین
محسن علی رضوی صاحب، آپ کی شراکتوں کے لیے شکریہ۔ لیکن میں یہ عرض کرنا مناسب سمجھتا ہوں کہ یہ دھاگا فارسی یا اردو شاعری کے لیے نہیں، بلکہ فارسی شعراء کے منتخب کلام کو اردو ترجمے کے ساتھ پیش کرنے کے لیے ہے تاکہ فارسی سیکھنے والے یا فارسی ادب میں دلچسپی رکھنے والے اردو داں لوگ مستفید ہو سکیں۔
mohsin ali razvi
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
محسن علی رضوی صاحب، آپ کی شراکتوں کے لیے شکریہ۔ لیکن میں یہ یاد دہانی کرانا مناسب سمجھتا ہوں کہ یہ دھاگا فارسی یا اردو شاعری کے لیے نہیں، بلکہ فارسی شعراء کے منتخب کلام کو اردو ترجمے کے ساتھ پیش کرنے کے لیے ہے تاکہ فارسی سیکھنے والے یا فارسی ادب میں دلچسپی رکھنے والے اردو داں لوگ مستفید ہو سکیں۔
mohsin ali razvi
نیز ٹیکسٹ کی شکل مین پیش کریں تاکہ مستقبل میں اس کا حوالہ سہل ہو جائے۔تصاویری مواد سے اجتناب ہو تو اور بہتر ہو۔اور ہاں ، ہم جیسوں کے لیے ترجمہ بھی ہو نا چاہیے۔
 

حسان خان

لائبریرین
سیلِ دریا دیده هرگز برنمی‌گردد به جوی
نیست ممکن هر که مجنون شد دگر عاقل شود

(صائب تبریزی)
سمندر دیکھ لینے والا سیلاب ہرگز نہر کی طرف واپس نہیں لوٹتا؛ جو شخص بھی مجنوں ہو جائے اُس کا دوبارہ عاقل بننا ممکن نہیں ہے۔
 

mohsin ali razvi

محفلین
عاملا عشق حقیقی بیابی زه کجا
رفته وجدان بشر باز نیاید بخدا
گشته بازار مصر عشق خریدار همه
مرده دل باد خَلق عشق حقیقی بکجاست
وقت آن نیست کنم قصه عشق و آتش
درد دل با که کنم سامع گفتار کجاست
عشق بینم چو شده قصه پارینه ما
درد الفت نبود عاشق مستانه کجاست
سینه ام چاک کنم ای رخ زیبای جهان
نور عشقت بدمد خنجر برانه کجاست
عامل شیرازی
 

محمد وارث

لائبریرین
بلبل صفَت عبید بہرجا کہ می رسد
غیر از حدیثِ عشق روایت نمی کند


عبید زاکانی

محبت کے ترانے گانے والی بلبل کی صفت رکھنے والا عبید جہاں جہاں جاتا ہے، عشق کی باتوں کے علاوہ کچھ اور بیان ہی نہیں کرتا۔
 

حسان خان

لائبریرین
هر شب کواکب کم کنند از روزیِ ما پاره‌ای
هر روز گردد تنگ‌تر سوراخِ این غربال‌ها

(صائب تبریزی)
ہر رات ستارے ہماری روزی میں سے کچھ حصہ کم کر دیتے ہیں؛ ہر روز ان چھلنیوں کے سوراخ مزید تنگ ہو جاتے ہیں۔
شاعر نے آسمان کو چھلنی اور ستاروں کو اُس چھلنی کے سوراخوں سے تشبیہ دی ہے۔

عشقت گرفت کِشوَرِ دل عقل گو برو
کان مُلک را بسنده بُوَد پادشه یکی
(عبدالرحمٰن جامی)

تمہارے عشق نے دل کے مُلک کو فتح کر لیا، عقل سے کہو کہ چلی جائے؛ کیونکہ اُس ملک کے لیے ایک ہی پادشاہ کافی ہے۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
چرا ز عرفیِ جانباز سر نمی طلبی
فدائے تیغِ تو جانم بسر چہ کار مرا


عرفی شیرازی

تُو جان کی بازی لگا دینے والے عرفی سے سر طلب کیوں نہیں کرتا، میری جان میں تیری تلوار کے صدقے، سر سے مجھے کیا لینا دینا۔
 

طارق حیات

محفلین
زاہد از مسجد یکبار بہ میخانہ در آ
عہد و پیمان شکن و طالب پیمانہ در آ

تا شود بر دلت اسرار شہودی مکشوف
در شبستانہ توحید چو پروانہ در آ

نام و ننگ از شودت مانع از ہستی عشق
عقل را خانہ بہم برزن دیوانہ در آ

چند در مدرسہ خوانی سبق بیدردی
سوز از شمع بیا موز بکا شانہ در آ

بیدلؔ از ساغر منصور می حال بنوش
وانگھان بیخود در مجلس در رندانہ آ

----------------------------
فقیر قادر بخش بیدل
روھڑی، سندھ
 

طارق حیات

محفلین
یا رب از میخانہ عشقم ساغر سرشار بخش
سینہ لبریز محبت و خاطر بیدار بخش

سرمہ عین الیقین در دیدہ حالم بکش
بی حجاب جسم جان را لذت دیدار بخش

از انقلاع قلعہ اوھام بیدلؔ شد ملول
ہمت تامش بحق حیدر کرار بخش

----------------------------
فقیر قادر بخش بیدل
 

طارق حیات

محفلین
بمعنی ریا از زنا کردہ اند- اگر بنگری صورت لفظ ہم
کسانیکہ مشق ریا کردہ اند- بہ تصحیف نامش زنا کردہ اند

معنوی لحاظ سے دیکھئے تو "ریا" زنا سے کم نہیں اور غور کیجئے تو صورتاََ بھی وہ اس سے ملتا جلتا ہے۔
جن لوگوں نے ریا کی مشق کی اس کے نام میں تصحیف کرکے درحقیقت زنا کی ہے۔

مرزا عبدالقادر بیدل دہلوی
 

حسان خان

لائبریرین
(رباعی)
از درگهت ای رسولِ یثرب مسکن
معذورم اگر به یادم آمد رفتن
نگذاشت مروت که ز گَردِ حرمت
عطری نرسانم به گریبانِ وطن

(ناظم هروی)
اے مدینے میں مقیم رسول! اگر مجھے آپ کی درگاہ سے جانے کی یاد آ گئی تو میں معذور ہوں۔۔۔ کیونکہ میری مروت نے گورا نہیں کیا کہ میں آپ کے حرم کی خاک سے ذرا سا عطر اپنے وطن کے گریبان تک نہ پہنچاؤں۔۔۔

دست و بازوی ترا بدنام بیجا کرده‌اند
در حقیقت قاتلِ من تیغِ ابروی تو بود

(صوفی غلام نبی عشقری)
لوگوں نے تمہارے ہاتھوں اور بازوؤں کو بے سبب بدنام کیا ہوا ہے ورنہ در حقیقت میری قاتل تو تمہارے ابروؤں کی تلوار تھی۔

به هم بودیم همچون خار و گل عمری بحمدالله
خلافِ رسمِ دورانِ فلک او ماند، من رفتم

(فضولی بغدادی)
ہم ایک عمر کانٹے اور پھول کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ تھے؛ خدا کا شکر ہے کہ گردشِ فلک کی رسم کے برخلاف وہ (پھول) باقی رہ گیا، اور میں (کانٹا) چلا گیا۔ (ورنہ عموماً قاعدہ یہ ہے کہ پھول مرجھا جاتا ہے اور کانٹا باقی رہ جاتا ہے۔)

مرا گفتی که: "خواهی مُرد در هجرانِ من بی‌شک"
مُحال است این سُخن! کَی می‌توان آسود دور از تو؟

(فضولی بغدادی)

تم نے مجھ سے کہا کہ "بے شک، میرے ہجر میں تم مر جاؤ گے۔"؛ [لیکن تمہارا] یہ سُخن مُحال ہے! تم سے دور رہ کر کب [کسی کو] آرام نصیب ہو سکتا ہے؟


گشادی پرده از عارض مکن منعِ من از افغان
رها کن تا زمانی بلبلِ این گلستان باشم

(عبدالرحمٰن جامی)
تم نے اپنے چہرے سے پردہ اٹھا لیا، (اب) مجھے نالہ و فغاں کرنے سے منع مت کرو۔ اجازت دو کہ میں کچھ مدت (تمہارے چہرے کے) اس گلستان کا بلبل بن جاؤں۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
(دعائیہ شعر)
چنان بر عیبِ خویشم دیده کن باز
که از عیبِ کسان برنارم آواز

(امیر خسرو دهلوی)
(اے اللہ!) میرے اپنے عیبوں پر میری آنکھیں اس طرح کھول دے کہ میں لوگوں کے عیبوں پر آواز نہ اٹھا سکوں۔

می‌نالم از جداییِ تو دم به دم چو نَی
وین طُرفه‌تر که از تو نَیَم یک نَفَس جدا

(عبدالرحمٰن جامی)

میں تمہاری جدائی کے باعث مسلسل نَے کی طرح نالہ و زاری کرتا رہتا ہوں؛ اور عجیب تر بات یہ ہے کہ میں تم سے ایک لحظے کے لیے بھی جدا نہیں ہوں۔
× نَے = بانسری


می‌کشی تیغ که سازی دلِ ما را به دو نیم
تیغ بگذار که یک غمزه تمام است اینجا

(عبدالرحمٰن جامی)
تم تلوار کھینچ رہے ہو تاکہ (اُس سے) ہمارے دل کو دو نیم کر دو۔۔۔ تلوار رکھ دو کہ یہاں (اِس کام کے لیے تمہاری) آنکھ کا ایک ناز بھرا اشارہ ہی کافی ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
در دلِ عارفِ تو هر دو جهان یاوه شود
کی درآید به دو چشمی که تو را دید خسی

(مولانا جلال الدین رومی)
تمہارے عارف - یعنی تمہیں پہچان لینے والے - کے دل میں دونوں جہان پوچ ہو جاتے ہیں؛ جن دو آنکھوں نے تمہیں دیکھ لیا ہو، اُن میں کب کوئی گھاس کا تنکا موردِ توجہ بنتا ہے؟

مریضِ آن لبم ای ناله چون رسی به فلک
بپرس شرحِ مداوای من مسیحا را

(عبدالرحمٰن جامی)
اے (میرے) نالے! میں اُس لب کا مریض ہوں، (اس لیے) جب تم آسمان تک پہنچو تو مسیحا سے میرے علاج کی شرح و تفصیل پوچھنا۔۔۔

هر بنا محکم ز سنگست ای دلت چون سنگ سخت
چون بنای دوستی محکم نمی‌بینم ترا

(عبدالرحمٰن جامی)
ہر عمارت پتھر (کے استعمال) سے مضبوط ہو جاتی ہے۔۔۔ اے وہ کہ جس کا دل پتھر کی طرح سخت ہے، آخر پھر کیوں میں تمہاری دوستی کی عمارت مضبوط نہیں دیکھتا؟

موجبِ حسنِ تو تنها نه خط و خال افتاد
عشقِ ما نیز ز اسبابِ جمالست ترا

(عبدالرحمٰن جامی)
صرف خط و خال ہی تمہارے حُسن کے موجب واقع نہیں ہوئے ہیں بلکہ ہمارا عشق بھی تمہارے جمال کے اسباب میں شامل ہے۔

نیست از قتلِ محبان غمزه‌ات هرگز ملول
کی ملالت خیزد از خون ریختن قصاب را

(عبدالرحمٰن جامی)
محبّوں کو قتل کر کے تمہارا غمزہ ہرگز ملول نہیں ہے؛ آخر قصاب کو خون بہانے پر کب ملال ہوتا ہے؟
غمزہ = آنکھ یا ابرو کا ناز بھرا اشارہ

عشق رسوایی‌ست جامی یا به خوبان دل مده
یا به کلی یک طرف نه نام و ننگِ خویش را

(عبدالرحمٰن جامی)
اے جامی! عشق رسوائی ہے۔۔۔ لہٰذا یا تو خُوبوں کو دل مت سونپو یا پھر اپنے نام و ننگ (یعنی عزت و شرف) کو مکمل طور پر ایک طرف رکھ دو۔۔۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
کرد یک گردشِ چشمِ تو چنانم ویران
که به صد دور، فلک هم نکند آبادم

(صباحی بیدگلی)
تمہاری آنکھوں کی ایک گردش نے مجھے ایسا ویراں کر دیا ہے کہ سو گردشوں کے ساتھ آسمان بھی مجھے (دوبارہ) آباد نہیں کر پائے گا۔

(رباعی)
می‌رفت به سوی برکه آن غیرتِ حور
گفتم که چرا طی کنی این وادیِ دور
بردار ز جوی دیده‌ام آب و بنوش
گفتا لبِ شیرینِ من و چشمهٔ شور؟

(صباحی بیدگلی)
وہ غیرتِ حور تالاب کی طرف جا رہا تھا۔ میں نے (اُس سے) کہا کہ اتنی طویل وادی کس لیے طے کر رہے ہو؟ میری آنکھوں کی نہر سے پانی نکالو اور پی جاؤ۔۔۔ اُس نے (جواب میں) کہا: میرے شیریں لب اور نمکین چشمہ؟ (یعنی اُس کی نظر میں دونوں چیزوں کے درمیان کوئی مناسبت نہیں تھی۔)
[برکہ کا تلفظ بِ رْ کَ ہے، اور عربی زبان میں یہ لفظ 'تالاب' کے لیے استعمال ہوتا ہے۔]

(رباعی)
سودی نکند هر که خریدارِ تو شد
صحت نپذیرد آنکه بیمارِ تو شد
آسوده نشد دلی که افگارِ تو شد
ای وای بر آن کس که گرفتارِ تو شد

(صباحی بیدگلی)
جو بھی تمہارا خریدار ہو جائے اُسے کوئی فائدہ نہیں ہوتا؛ جو بھی تمہارا بیمار ہو جائے وہ پھر صحت قبول نہیں کرتا؛ جو دل بھی تمہارا زخمی ہو گیا وہ دوبارہ آسودہ نہیں ہوا؛ (لہٰذا) جو شخص تمہارا گرفتار ہو گیا ہو اُس پر افسوس!

شمعِ ایران گویمت، یا ماهِ توران خوانمت؟
قبلهٔ دل دانمت، یا کعبهٔ جان خوانمت؟

(ناصر بخارایی)
میں تمہیں ایران کی شمع کہوں، یا توران کا چاند پکاروں؟ میں تمہیں قبلۂ دل جانوں، یا کعبۂ جاں پکاروں؟

گفتم که عدم گشت وجودم ز غمِ تو
گفتا که کِرا غم ز وجود و عدمِ تو

(عبدالقادر خواجه سودا بخارایی)
میں نے کہا کہ تمہارے غم کے باعث میرا وجود عدم میں تبدیل ہو گیا ہے۔ اُس نے (بے رخی سے) کہا کہ تمہارے وجود و عدم کا کس کو غم ہے؟

ملامت می‌کند عشاق را زاهد، بنه عذرش
اگر دیدی جمالش یک نظر، ما را معافیدی

(عبدالقادر خواجه سودا بخارایی)
(اگر) زاہد عاشقوں کو ملامت کرتا ہے، (تو) اُسے عفو کرو؛ اگر وہ اُس کا جمال ایک نظر دیکھ لیتا، تو ہمیں معاف کر دیتا۔
['معافیدن' فارسی کا کوئی مصدر نہیں ہے، بلکہ شاعر نے اس غزل کے لیے زبان میں تصرف کر کے عربی کے 'معاف' سے ایک فعل وضع کیا ہے۔ یہ پوری غزل اسی اسلوب میں ہے۔]
 
آخری تدوین:
Top