(زنجیرِ شتاب)
در شهرم و روحم از هیاهو خستهست؛
زنجیرِ شتاب دست و پا را بستهست:
ای کاش که دِه برای من جایی داشت
در زندگیاش، که ساده و آهستهست!
(محمود کیانوش)
میں شہر میں ہوں اور میری روح (اِس کے) شور و غل سے خستہ ہے؛ (یہاں) عُجلت و جلد بازی کی زنجیر نے (میرے) دست و پا کو باندھا ہوا ہے؛ اے کاش کہ گاؤں اپنی زندگی میں، کہ جو سادہ اور آہستہ ہے، میرے لیے کوئی جگہ رکھتا!
(بیآرزویی)
ای گل که شگفت رنگ و بویی داری،
با شبنم و نور گفت و گویی داری،
خوش باش، که گرچه فرصتت کوتاه است،
در سینه دلِ بیآرزویی داری!
(محمود کیانوش)
اے حیرت انگیز رنگ و بو کے حامل اور شبنم و نور سے گفتگو کرنے والے گُل! خوش رہو، کہ اگرچہ (اس دنیا میں) تمہاری مہلت تو کم ہے لیکن تم (اپنے) سینے میں ایک بے آرزو دل رکھتے ہو!