حسان خان

لائبریرین
ریشهٔ نخلِ کهنسال از جوان افزون‌ترست
بیشتر دلبستگی باشد به دنیا پیر را

(صائب تبریزی)
سال خوردہ پودے کی جڑیں جوان پودے کی نسبت زیادہ (گہری) ہوتی ہیں؛ (لہٰذا ثابت ہوا کہ) بوڑھے شخص کو دنیا سے قلبی تعلق زیادہ ہوتا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
گویند ناصر از غمِ تو دوست واقف است
خود را بدیں دروغ چرا شادماں کنم؟


ناصر بخاری

اے ناصر، لوگ کہتے ہیں کہ محبوب تیرے غم سے واقف ہے، میں اپنے آپ کو اِس جھوٹ سے شادمان کیوں کروں؟
 

حسان خان

لائبریرین
من به اوجِ لامکان بُردم، وگرنه پیش ازین
عشق‌بازی پلّه‌ای از دار بالاتر نداشت

(صائب تبریزی)
میں (اسے) لامکاں کی بلندی تک لے گیا، ورنہ اس سے قبل عشق بازی کا سُولی سے بالاتر کوئی مرحلہ نہیں تھا۔
[پلّہ = زینے کا قدمچہ]
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
فیضی ز غم و شادیِ عالم خَبَرے نیست
شادم کہ بہ دل جُز غمِ جانانہ ندارم


فیضی دکنی

فیضی، مجھے دنیا کے غم اور خوشی کی کچھ خبر نہیں ہے، میں اسی میں خوش ہوں کہ میرے دل میں غمِ جاناں کے سوا کچھ بھی نہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
به صبر مشکلِ عالم تمام بگشاید
که این کلید به هر قفل راست می‌آید

(صائب تبریزی)
صبر سے دنیا کے تمام مشکل عقدے کھل جاتے ہیں کیونکہ یہ چابی ہر تالے پر ٹھیک بیٹھتی ہے۔

بر‌نمی‌دارد شراکت ملکِ تنگِ بی‌غمی
زین سبب اطفال دایم دشمنِ دیوانه‌اند

(صائب تبریزی)
بے غمی کا تنگ مُلک شراکت برداشت نہیں کرتا؛ یہی سبب ہے کہ بچّے ہمیشہ دیوانے کے دشمن ہوتے ہیں۔
(بچّے اور دیوانے دونوں ہی بے غم ہوتے ہیں۔)
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
(رباعی)
تا از برم آن یارِ پسندیده برفت
آرام و قرار از دلِ شوریده برفت
خونِ دلم از دیده روان است از آنک
از دل برود هر آنچه از دیده برفت

(امیر معزی)
جیسے ہی وہ پسندیدہ یار میرے پہلو سے گیا، (میرے) دلِ شوریدہ سے آرام و قرار رخصت ہو گیا؛ میرے دل کا خون (میری) آنکھ سے (اس لیے) رواں ہے کیونکہ جو چیز بھی آنکھ سے چلی جائے وہ دل سے رخصت ہو جاتی ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
سهل است اگر به باد رود نقدِ جانِ ما
قارون ز کوی عشق گدا می‌رود برون

(صائب تبریزی)

اگر (کوئے عشق میں) ہمارا نقدِ جاں برباد ہو جائے تو یہ سہل ہے (یعنی یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے)؛ کوئے عشق میں تو اگر بخیلوں کا سردار قارون بھی آتا ہے تو وہ (اپنا سب کچھ لُٹا کر) یہاں سے گدا بن کر باہر نکلتا ہے۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
بحمد اللہ کہ جاں بر باد رفت و خاک شد تن ھم
ز پندِ دوست فارغ گشتم و از طعنِ دُشمن ھم


ہلالی چغتائی

خدا کا شکر کہ میری جان نابود ہو گئی اور جسم بھی خاک ہو گیا، اور میں دوستوں کی نصیحتوں سے آزاد ہو گیا اور دشمنوں کے طعنوں سے بھی۔
 

حسان خان

لائبریرین
نیست دمی که نرگست فتنه بپا نمی‌کند
نیست شبی که دیده‌ام بی تو ژړا ‌نمی‌کند

(خوشحال خان خٹک)
کوئی لحظہ ایسا نہیں کہ جب تمہاری نرگس [جیسی چشم] فتنہ برپا نہ کرتی ہو؛ کوئی شب ایسی نہیں کہ میری چشم تمہارے بغیر گریہ نہ کرتی ہو۔
× شاعر نے اس شعر میں ایک پشتو لفظ ژړا (ژڑا) استعمال کیا ہے، جس کا مطلب گریہ ہے۔


ایزد چو چشمِ شوخِ بتان را بیافرید
جادویِ بُردنِ دل و جان را بیافرید

(خوشحال خان خٹک)

ایزد تعالیٰ نے جب بتوں [یعنی حسینوں] کی شوخ آنکھوں کو تخلیق کیا تو اُس نے [در حقیقت‌] دل و جان ہتھیانے کا جادو تخلیق کیا۔


خوشحال خان خٹک کا فارسی کلام یہاں سے پڑھا جا سکتا ہے۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
ندادی دل بشوخے، ذوقِ سربازی چہ می دانی
نخوردی زخمِ تیغے، حالتِ بسمل چہ می پُرسی


غنیمت کنجاہی

تُو نے کسی شوخ کو دل ہی نہیں دیا تُو کیا جانے کہ سر دینے کا ذوق کیا ہے۔ تُو نے کسی تلوار کا زخم ہی نہیں کھایا تُو بسمل کی حالت کیا پوچھتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
زین همرهانِ سست عناصر دلم گرفت
شیرِ خدا و رستمِ دستانم آرزوست
(مولانا جلال الدین رومی)

میرا دل اِن بے ہمت اور سست ارادہ ہم راہوں سے بیزار ہو گیا ہے؛ مجھے شیرِ خدا حضرت علی اور رستمِ پہلوان جیسے لوگوں کی آرزو ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
اگر کلام نه از آسمان فرود آید
چرا به هر سخنی خامه در سجود آید
(صائب تبریزی)

اگر کلام آسمان سے نازل نہیں ہوتا تو پھر ہر سخن کو لکھتے وقت قلم سجدے کی حالت میں کیوں آتا ہے؟
 
عمر خیام
از منزل کفر تا بہ دین یک نفس است
و ز عالم شک تا بہ یقین یک نفس است
این یک نفس عزیز را خوش می دار
کز حاصل عمر ما ہمین یک نفس است

ترجمہ منظوم سید شاکر القادری

اک نفس کا فاصلہ ہے درمیان کفر و دیں
اک نفس ہی ہے میان عالم ظن و یقیں
بس اسی اک دم کو ہر دم شاد رکھ آباد رکھ
حاصل عمر رواں اس کے سوا کچھ بھی نہیں
 

حسان خان

لائبریرین
امیدِ دلگشایی داشتم از گریهٔ خونین
ندانستم که چون تر شد گره دشوار بگشاید

(صائب تبریزی)
مجھے (اپنے) خونِیں گریے سے دل کشائی کی امید تھی؛ میں نہیں جانتا تھا کہ جب گرہ تر ہو جائے تو وہ دشواری سے کھلتی ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
افروختن و سوختن و جامہ دریدن
پروانہ ز من، شمع ز من، گُل ز من آموخت


طالب آملی

شمع نے چمکنا، پروانے نے جلنا اور پھول نے گریبان چاک کر کے کِھلنا مجھی سے سیکھا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
نیست بر لوحِ دلم جز الفِ قامتِ یار
چه کنم حرفِ دگر یاد نداد استادم
(حافظ شیرازی)

میرے دل کی تختی پر یار کے قد کے الف کے سوا کچھ نہیں ہے۔۔۔ کیا کروں، استاد نے مجھے دوسرا حرف یاد ہی نہیں کرایا۔

[نسخوں میں 'الفِ قامتِ دوست' بھی درج ہے۔]
 
آخری تدوین:

بلال حیدر

محفلین
بزمِ وصلت جائے پاکاں ہست و من ز ایشانیم
چوں سگانم جائے دہ در سایہء دیوار خویش
تیرے وصال کی محفل تو پاک لوگوں کی جا ہے میں اس کے قابل کہاں
مجھ جیسے کتے کو تو تیری دیوار کا سایہ ہی کافی ہے
جامیؒ
 
Top