ابلہی بود کہ مرغِ دلِ من رم دادی
ایں ہما بود کہ از دستِ تو پرواز گرفت
علامہ شبلی نعمانی
یہ تیری نادانی تھی کہ تُو نے میرے دل پرندے کو بھگا دیا، یہ تو ہما تھا جو تیرے ہاتھ سے نکل کر پرواز کر گیا۔
بہت خوب ۔اسی رباعی پر راقم کا ایک ترجمہ ذہن میں تازہ ہوا۔خیام
افسوس کہ نامہ جوانی طی شد
واں تازہ بہار زندگانی دی شد
آن مرغ طرب کہ نام او بود شباب
فریاد! ندانیم کہ کی آمد و کی شد
شاکر القادری
ہائے صد افسوس کہ وقت جوانی طے ہوا
آگیا وقت خزاں دور بہاراں جا چکا
شادمانی کا پرندہ نام تھا جس کا شباب
کب خدا معلوم آیا اور کس دم اڑ گیا
جاناں توئی کلیم ومنم چوں عصائے تو
گہ تکیہ گاہ گشتم و گہ اژدہائے تو
شاعر معلوم نہیں