پای تا سر جمله لطفی گویی استادِ ازل
طینتِ پاکت نه ز آب و گل ز جان و دل سرشت
(عبدالرحمٰن جامی)
تم سر سے پا تک کاملاً لطافت ہو؛ گویا استادِ ازل (خدا) نے تمہاری طینتِ پاک کو آب و گِل سے نہیں، بلکہ جان و دل سے خلق کیا ہے۔
هر کجا در چمن از شوقِ تو آهی زدهایم
بال و پر سوخته مرغی ز هوا افتادهست
(عبدالرحمٰن جامی)
ہم نے چمن میں جس جگہ بھی تمہارے اشتیاق میں ایک آہ نکالی ہے وہاں کوئی بال و پر جلا ہوا پرندہ فضا سے گر پڑا ہے۔
چو مورم مکن پایمالِ جفا
که بر زیردستان ترحّم خوش است
(عبدالرحمٰن جامی)
چیونٹی کی طرح مجھے پامالِ جفا مت کرو کیونکہ زیردستوں پر رحم کرنا نیک بات ہوتی ہے۔
زیرِ دیوارِ تو هر شب زار نالم تا سحر
بر لبِ بام آ شبی کاین نالههای زارِ کیست
(عبدالرحمٰن جامی)
میں تمہاری دیوار کے نیچے ہر شب صبح تک سوز و درد کے ساتھ نالہ کرتا رہتا ہوں؛ کسی شب تو لبِ بام پر یہ پوچھنے کے لیے آؤ کہ یہ نالہ ہائے زار کس کے ہیں۔
نادیده میکنی چو فتد دیده بر منت
جانم فدای دیدن و نادیده کردنت
(هلالی جغتایی)
جیسے ہی تمہاری نظر مجھ پر پڑتی ہے تم مجھے نادیدہ کر دیتے ہو؛ تمہارے (یوں) دیکھنے اور نادیدہ کر دینے پر میری جان قربان جائے!