محمد وارث

لائبریرین
وائے زاہد کہ بمحرابِ عبادت عمرے
سجدہ ہا کرد و ندانست کہ مسجود کجاست


ابوالفیض فیضی دکنی

افسوس اُس زاہد پر کہ جو تمام عمر اپنی محرابِ عبادت میں سجدے کرتا رہا اور یہ نہ جان پایا کہ مسجود کہاں ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
مولانا جامی رحمہ اللہ کے فارسی اشعار کی اردو منظوم ترجمانی (حسان بھائی کےانتخاب کی نذر )

گشتم چنان ضعیف که بی ناله و فغان
ظاهر نمی‌شود که درین پیرهن یکیست

(عبدالرحمٰن جامی)
اتنا ضعیف ہوں میں کہ بے نالہ و فغاں
ظاہرنہیں کہ آدمی ہے پیرہن میں ایک


آنجا که لعلِ دلکشِ شیرین دهد فروغ
یاقوت و سنگ در نظرِ کوهکن یکیست

(عبدالرحمٰن جامی)
ہر سو جہاں فروغ ہو شیریں کے لعل سے
یاقوت و سنگ ہیں نظرِ کوہکن میں ایک


جامی درین چمن دهن از گفت و گو ببند
کاینجا نوای بلبل و صوتِ زغن یکیست

(عبدالرحمٰن جامی)
جامی کو چاہیے یہاں خاموش ہی رہے
ہیں شورِ زاغ و نالۂ بلبل چمن میں ایک
بہت خوب جناب!
===========

سیرِ گلشن کردی و گل غنچه شد بارِ دگر
بسکه از شرمِ جمالت دست پیشِ رو گرفت
(ابوطالب کلیم کاشانی)

تم نے گلشن کی سیر کی اور (نتیجتا‌ً) گُل نے تمہارے جمال سے شرم محسوس ہونے پر اپنے چہرے کو ہاتھوں سے اتنا زیادہ چھپایا کہ وہ دوبارہ غنچہ بن گیا۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
شب‌های هجر را گذراندیم و زنده‌ایم
ما را به سخت جانیِ خود این گمان نبود
(شکیبی اصفهانی)

ہم نے ہجر کی شبیں گذار دیں اور (پھر بھی) ہم زندہ ہیں؛ ہمیں اپنی سخت جانی کا یہ گمان نہیں تھا۔

آسایشِ دو گیتی، تفسیرِ این دو حرف است
با دوستان مروّت، با دشمنان مدارا
(حافظ شیرازی)

دونوں جہاں کی آسائش (در اصل) ان دو باتوں کی تفسیر (میں پوشیدہ) ہے: "دوستوں کے ساتھ مروّت کرو، اور دشمنوں کے ساتھ مدارات۔"
 

محمد وارث

لائبریرین
از ظہوری شد بلند آوازۂ افتادگی
در گدائی حشمتم بیں، شوکتِ سلطاں کجاست


ظہوری ترشیزی

ظہوری کی وجہ سے انکساری اور خاکساری کا چرچا ہر طرف ہو گیا، گدائی میں میری حشمت تو ذرا دیکھ، بادشاہوں کی شوکت کہاں ہے؟
 

حسان خان

لائبریرین
اینکه گاهی چهره‌ات را ماه می‌خوانیم ما
بیشتر از هر کسی مهتاب لذت می‌برد
(مهدی رحیمی)

یہ جو ہم بعض اوقات تمہارے چہرے کو 'ماہ' کہہ کر پکارتے ہیں تو (اس بات سے) ہر کسی سے بیشتر (خود) مہتاب لذت اٹھاتا ہے۔
[فارسی زبان میں لفظِ مہتاب، 'ماہ' اور 'تابشِ ماہ' دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔]
 

حسان خان

لائبریرین
نمی‌خواهم که از خوبان شکایت بر زبان رانم
همان بهتر نپرسد هیچ کس حالِ خرابم را

(محمد فضولی بغدادی)
میں نہیں چاہتا کہ خُوبوں کی شکایت (اپنی) زبان پر لاؤں؛ (لہٰذا) یہی بہتر ہے کہ کوئی شخص بھی میرے حالِ خراب کے بارے میں استفسار نہ کرے۔

هیچ شربت نیست بهرِ دفعِ سودایم مفید
غیرِ یادِ وصل و ذکرِ لعلِ جانان، ای طبیب!

(محمد فضولی بغدادی)
اے طبیب! میری دیوانگی کو دور کرنے کے لیے وصل کی یاد اور لعلِ جاناں کے ذکر کے سوا کوئی شربت مفید نہیں ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
باور نکردنی‌ست پس از قرن‌ها هنوز
چون دلبرانِ دورهٔ سعدی ستمگری

(عبدالمهدی نوری)
یہ بات ناقابلِ‌ یقین ہے کہ صدیوں بعد بھی تم ابھی تک شیخ سعدی شیرازی کے زمانے کے دلبروں کی طرح ستم گر ہو۔
 
آخری تدوین:
وائے زاہد کہ بمحرابِ عبادت عمرے
سجدہ ہا کرد و ندانست کہ مسجود کجاست


ابوالفیض فیضی دکنی

افسوس اُس زاہد پر کہ جو تمام عمر اپنی محرابِ عبادت میں سجدے کرتا رہا اور یہ نہ جان پایا کہ مسجود کہاں ہے۔
واہ ، واہ ،
کیا کہنے
 

محمد وارث

لائبریرین
ہر کس شناخت قدر مرا، قیمتم شکست
گوھر شناس بے غرضے در جہاں کجاست


ابوطالب کلیم کاشانی

جس کسی نے بھی میری قدر پہچانی اُس نے میری قیمت گرا دی، آخر اِس جہاں میں بے غرض گوھر شناس کہاں ہے؟
 

حسان خان

لائبریرین
تنم ز آتشِ دل می‌گداخت گر شبِ غم
سرشک، آب بر آتش نمی‌فشاند مرا
(محمد فضولی بغدادی)

اگر شبِ غم اشکوں نے میری آگ پر آب نہ چھڑکا ہوتا تو میرا تن دل کی آگ سے پگھل چکا ہوتا۔

چه جویم التفات از گلرخی کز غایتِ شوخی
ز اسبابِ کمالِ حسن می‌داند تغافل را
(محمد فضولی بغدادی)

میں اُس گُل چہرہ (محبوب) سے التفات کی کیا جستجو کروں کہ جو (اپنی) نہایت شوخی کے باعث تغافل کو (بھی) حُسن کے کمال کے اسباب میں شامل جانتا ہے۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
عاشقاں ہر یک بروئے یارِ خود خنداں و شاد
من چنیں غمگیں چرایم، غمگسارِ من کجاست


مولانا عبدالرحمٰن جامی

ہر ایک عاشق اپنے اپنے محبوب کے روبرو خنداں اور شاد ہے، میں ایسے غمگین کیوں ہوں، میرا غمگسار کہاں ہے؟
 

حسان خان

لائبریرین
نذر کردم گر از این غم به درآیم روزی
تا درِ میکده شادان و غزل‌خوان بروم

(حافظ شیرازی)
میں نے نذر کی ہے کہ اگر کسی روز اس غم سے رہا ہو جاؤں تو میخانے کے در تک شاداں و غزل خواں راہ طے کروں گا۔

نه‌ای عاشق اگر فکرِ نجات از قیدِ غم داری
چه نسبت با اسیرِ عشق، تدبیر و تأمل را؟

(محمد فضولی بغدادی)
اگر تمہیں قیدِ غم سے نجات کی فکر ہے تو تم عاشق نہیں ہو؛ (کیونکہ) اسیرِ عشق سے تدبیر اور غور و فکر کو کیا نسبت؟

ز ازل در دلِ من بود، فضولی! غمِ عشق
فلک آشفته بدین‌سان نه کنون کرد مرا

(محمد فضولی بغدادی)
اے فضولی! فلک نے مجھے اِس طرح ابھی آشفتہ نہیں کیا بلکہ ازل ہی سے میرے دل میں غمِ عشق تھا۔
 

حسان خان

لائبریرین
نیست از مهر، این که خونم را ‌نمی‌ریزد فلک
از برای روزگاری زین بتر دارد مرا
(محمد فضولی بغدادی)

یہ جو فلک میرا خون نہیں بہاتا تو یہ از راہِ محبت نہیں ہے بلکہ اُس نے مجھے اِس سے بدتر زمانے کے لیے محفوظ رکھا ہوا ہے۔

دانسته‌ام که عارضهٔ عشق بی‌دواست
بیهوده دردِ سر چه رسانم طبیب را؟
(محمد فضولی بغدادی)

میں سمجھ گیا ہوں کہ عشق کا عارضہ لاعلاج ہے، (لہٰذا اب) میں طبیب کو بے وجہ دردِ سر کیوں دوں؟
 

محمد وارث

لائبریرین
من دریں فکرِ پریشاں کہ دلِ زار کجاست
دل دریں سعیِ سراسیمہ کہ دلدار کجاست


میرزا مظہر جانجاناں

میں اس فکرِ پریشاں میں ہوں کہ میرا زار زار دل کہاں ہے اور دل اس اضطرابی جدوجہد میں ہے کہ دلدار کہاں ہے۔
 

مہندس

محفلین
کیا کوئی دوست درج ذیل کلام کو مکمّل کر سکتا ہے؟

اے گرگ باراں دیده
اے سرد و گرم چشیده
اے مردوک غیر سنجیدہ ۔ ۔ ۔
 

حسان خان

لائبریرین
بود پنهان دردِ عشقِ من، فضولی! مدتی
کرد رسوا پیشِ مردم دیدهٔ گریان مرا

(محمد فضولی بغدادی)
اے فضولی! ایک مدت تک میرا دردِ عشق پنہاں تھا (لیکن بالآخر) مجھے لوگوں کے سامنے میری دیدۂ گریاں نے رسوا کر دیا۔

خلعتِ آلِ تو آن آتشِ ابراهیم است
که نهان است در او نُزهتِ گل‌های بهشت

(محمد فضولی بغدادی)
تمہاری سرخ پوشاک اُس آتشِ ابراہیم کی طرح ہے کہ جس کے اندر بہشت کے گُلوں کی خوشی و خرّمی اور سرسبزی پوشیدہ ہے۔

کَی شود واقف ز ادراکِ عذابِ آخرت
آن که در دنیا به بیدادِ بتان معتاد نیست؟

(محمد فضولی بغدادی)
وہ شخص عذابِ آخرت کے ادراک سے کیسے واقف ہو سکتا ہے کہ جو دنیا میں بُتوں (یعنی معشوقوں) کے ظلم و ستم کا عادی نہیں ہے؟
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
گرفتم ایں کہ جہاں خاک و ما کفِ خاکیم
بہ ذرّہ ذرّۂ ما دردِ جستجو ز کجاست؟


علامہ محمد اقبال (زبورِ عجم)

میں نے جان لیا، مان لیا کہ یہ جہان خاک سے ہے اور ہم بھی فقط ایک مُشتِ خاک ہی ہیں لیکن ہمارے ذرے ذرے میں یہ جو دردِ جستجو ہے یہ کہاں سے ہے؟
 

حسان خان

لائبریرین
می‌شود آتش ز باد افزون، چه باشد گر مُدام
حسنِ روز افزون ز آهِ من بیفزاید تو را؟
(محمد فضولی بغدادی)

ہوا سے آتش مزید شعلہ ور ہو جاتی ہے؛ (لہٰذا‌) کیا ہو اگر تمہارا روز افزوں حُسن (بھی) میری آہ کے باعث ہمیشہ بیشتر ہوتا رہے؟

ز بادِ تند، ناصح، موجِ دریا بیش می‌گردد
چه سود از کثرتِ پندت دلِ پُراضطرابم را؟
(محمد فضولی بغدادی)

اے ناصح! تند ہوا سے بحر کی موجوں میں اضافہ ہو جاتا ہے، (لہٰذا) تمہاری نصیحتوں کی کثرت سے میرے مضطرب دل کو کیا فائدہ ہو گا؟

عشق‌بازی را سرورِ سینه می‌پنداشتم
محنتِ بی‌حد و دردِ بی‌دوایی بوده‌است
(محمد فضولی بغدادی)

میں عاشقی کو سُرورِ سینہ و دل سمجھا کرتا تھا (لیکن وہ تو در حقیقت) بے حد رنج اور ایک لاعلاج درد رہی ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
رخ کشودند و لب ہرزہ سرایم بستند ،،،، دل ربودند و دو چشم نگرانم دادند غالب
A sudden glimpse was made upon me and thus stamped my lips with utter speechlessness ......
and thence robbed me off my soul and rendered myself with no more than two sheer staring eyes ...
Ghalib ۔
 

حسان خان

لائبریرین
هر کجا افتاده‌ام افکنده فرشی زیرِ من
نیست در روی زمین جز سایه، غمخواری مرا
(محمد فضولی بغدادی)

میں جہاں بھی گرا ہوں، وہاں اس نے میرے نیچے ایک فرش بچھا دیا ہے؛ روئے زمیں پر (میرے) سائے کے سوا میرا کوئی غمخوار نہیں ہے۔

چند در کوی تو باشد هم‌نشینِ من رقیب
برقِ آهم کاش یا او را بسوزد، یا مرا
(محمد فضولی بغدادی)

تمہارے کوچے میں کب تک رقیب میرا ہم نشین بنا رہے؟۔۔۔ کاش میری برقِ آہ یا تو اُسے جلا ڈالے، یا مجھے جلا دے۔

دهخدا تجربهٔ عشق ندارد، ورنه
معنیِ مرگ و جدایی به یقین هر دو یکیست

(کاظم بهمنی)
دہخدا کو عشق کا تجربہ نہیں ہے، ورنہ مرگ اور جدائی کا معنی یقیناً ایک ہی ہے۔
 
Top