حسان خان

لائبریرین
(رباعی)
گفتم که دگر چشم به دلبر نکنم
صوفی شوم و گوش به مُنکَر نکنم
دیدم که خلافِ طبعِ موزونِ من است
توبت کردم که توبه دیگر نکنم

(سعدی شیرازی)
میں نے کہا کہ میں اب دوبارہ دلبر پر نگاہ نہیں ڈالوں گا؛ صوفی بن جاؤں گا اور ناروا باتوں پر کان نہیں دھروں گا؛ (لیکن) میں نے دیکھا کہ یہ میری طبعِ موزوں کے خلاف ہے؛ (لہٰذا) میں نے توبہ کر لی کہ اب دوبارہ توبہ نہیں کروں گا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
خوبی ہمیں کرشمہ و ناز و خرام نیست
بسیار شیوہ ہست بتاں را کہ نام نیست


بابا فغانی شیرازی

فقط یہ کرشمہ، یہ ناز و انداز، یہ خرام ہی اُن کی خوبی نہیں ہے بلکہ حسیناؤں کے بہت سے طور طریقے اور شیوے ایسے ہیں کہ جن کا کوئی نام ہی نہیں ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
همی‌ترسم که روزِ او سراسر رنگِ شب گیرد
از آن با کس نمی‌گویم غمِ شب‌های هجران را

(سیف فرغانی)
میں ڈرتا ہوں کہ اُس کا دن پوری طرح رات کا رنگ اختیار کر لے گا؛ اس لیے میں کسی سے (اپنے) شب ہائے ہجراں کے غم بیان نہیں کرتا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
کے تمنّائے تو از خاطرِ ناشاد روَد
داغِ عشقِ تو گُلے نیست کہ بر باد روَد


ابوطالب کلیم کاشانی

تیری تمنّا میرے دلِ ناشاد سے کیسے نکل جائے کہ تیرے عشق کا داغ کوئی پھول تو نہیں ہے کہ ہواؤں میں بکھر جائے۔
 

حسان خان

لائبریرین
کلیدِ هشت بهشت ار به من دهد رضوان
نه مَردم ار بگذارم درِ سرای تو را

(سیف فرغانی)
خواہ رضوان مجھے ہشت بہشت کی کلید سونپ دے (تب بھی) میں مرد نہیں ہوں اگر تمہاری منزل کا در چھوڑ دوں۔

کاشکی امروز برخیزد قیامت تا روند
دیگران سوی بهشت و دوزخ و ما سوی دوست

(سیف فرغانی)
اے کاش کہ آج قیامت برپا ہو جائے تاکہ دیگر اشخاص بہشت اور دوزخ کی جانب چلے جائیں اور ہم (اپنے) معشوق کی جانب۔

به کوشش وصلِ تو دریافت نتوان
ولیکن من بکوشم تا توان هست

(سیف فرغانی)
(اگرچہ) کوشش سے تمہارا وصل نہیں پایا جا سکتا لیکن جب تک (مجھ میں) توانائی ہے میں کوشش کرتا رہوں گا۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
مرا روی تو محبوبست همچون مال قارون را
مرا وصلِ تو مطلوبست چون دیدار موسی را
(سیف فرغانی)

مجھے تمہارا چہرہ (اس طرح) محبوب ہے جس طرح قارون کو مال محبوب ہے؛ مجھے تمہارا وصل (اس طرح) مطلوب ہے جس طرح موسیٰ کو دیدار مطلوب ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
بر بیاضِ رُخم مُحرّرِ اشک
قصّۂ دردِ انتظار نوشت


مولانا عبدالرحمٰن جامی

میرے چہرے کی کتاب پر اشکوں کے محرر نے انتظار کے درد کا قصہ لکھ دیا۔
 

حسان خان

لائبریرین
تا کَی به رنگِ طفل‌مزاجانِ روزگار
بر بیش شاد بودن و بر کم گریستن
(میرزا بیدل دهلوی)

اس دنیا کے طفل مزاجوں کی طرح کب تک کسی چیز کے زیادہ ہونے پر خوش اور کم ہونے پر رویا جائے؟
(مترجم: آغا اریب)

مرا گویی بده صد جان و بوسی از لبم بستان
ندانستم که نزدِ تو چنین قیمت بوَد جان را

(سیف فرغانی)
تم مجھ سے کہتے ہو کہ "سو جانیں دے دو اور (عوض میں) میرے لب سے ایک بوسہ لے لو"؛ میں نہیں جانتا تھا کہ تمہارے نزدیک (میری) جان کی اتنی (زیادہ) قیمت ہے۔

مرا حالِ دلِ آوارهٔ خود یاد می‌آید
ز دردِ عاشقی هر جا دلی غمناک می‌بینم

(عبدالرحمٰن جامی)
میں جہاں بھی عاشقی کے درد سے کوئی دل غم ناک دیکھتا ہوں تو مجھے اپنے دلِ آوارہ کا حال یاد آتا ہے۔

خدا را ای نصیحت‌گو حدیثِ ساغر و می گو
که نقشی در خیالِ ما از این خوش‌تر نمی‌گیرد

(حافظ شیرازی)
اے ناصح! خدارا ساغر و مے کی بات کہو کہ ہمارے صفحۂ خیال پر اس سے بہتر کوئی نقش منقوش نہیں ہوتا۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
دل پُر از درد و دیدہ پُر خونست
حالم ایں است، حالِ تو چونست؟


درویش ناصر بخاری

دل درد سے بھرا پڑا ہے اور آنکھیں خونی آنسوؤں سے، میرا حال تو یہ ہے تیرا کیا حال ہے؟
 

حسان خان

لائبریرین
ز دستِ جورِ تو گفتم ز شهر خواهم رفت
به خنده گفت که حافظ برو، که پای تو بست؟
(حافظ شیرازی)

میں نے (محبوب سے) کہا کہ تمہارے ستم کے ہاتھوں میں (اس) شہر سے چلا جاؤں گا؛ اُس نے (جواب میں) تبسم کے ساتھ کہا کہ چلے جاؤ حافظ! کس نے تمہارے پاؤں باندھے ہیں؟
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
ہر خارِ ایں بیاباں مژگانِ دلربائیست
ہر موجۂ سرابے آغوشِ آشنائیست


غنیمت کنجاہی

اِس بیاباں کا ہر کانٹا میرے لیے ایسے ہی ہے جیسے دلربا کی پلکیں اور سراب کی ہر موج جیسے آشنا کی آغوش۔
 

حسان خان

لائبریرین
من در حجابِ عشقم و او در نقابِ شرم
ای وای اگر قدم ننهد در میان شراب!
(صائب تبریزی)

میں عشق کے حجاب میں ہوں اور وہ شرم کے نقاب میں ہے؛ اے وائے اگر (ہمارے) درمیان شراب قدم نہ رکھے!
 

محمد وارث

لائبریرین
کدام دیدہ کہ از دیدنَت فریب نخورد
کدام دل کہ ز عشقِ تو ناشکیبا نیست


ابوالفیض فیضی دکنی

وہ کونسی آنکھ ہے کہ جس نے تیری دید سے فریب نہ کھایا ہو؟ وہ کونسا دل ہے کہ جو تیرے عشق میں بے صبر و بے قرار و بے تاب نہیں ہے؟
 
حیف در چشم زدن صحبتِ یار آخر شد
روئے گل سیر ندیدم و بہار آخر شد
افسوس پلک چھپکنے میں دوست کی مجلس ختم ہوگئی
پھول کے چہرے کو پورا نہ دیکھا اور بہار ختم ہوگئی
 

حسان خان

لائبریرین
زان میِ عشق کز او پخته شود هر خامی
گرچه ماهِ رمضان است بیاور جامی
(حافظ شیرازی)

ہرچند کہ ماہِ رمضان ہے، تم اُس شرابِ عشق سے کہ جسے پی کر ہر عاشقِ خام پختہ ہو جاتا ہے، ایک جام لے آؤ۔

روزِ ماهِ رمضان زلف میفشان که فقیه
بخورد روزهٔ خود را به گمانش که شب است
(شاطر عباس صبوحی)

ماہِ رمضان کے دنوں میں (اپنی) زلف مت بکھراؤ کہ فقیہ اس گمان سے اپنا روزہ افطار کر لے گا کہ شب ہو گئی ہے۔
 
اہلِ دنیا را زِ غفلت زندہ دل پنداشتیم
خفتہ،آرے، مُردگاں را زندہ مے بیند بخواب
(ناصر علی سرہندی)
ہم غفلت سے دنیا کے لوگوں کو زندہ دل سمجھ بیٹھے۔ بے شک! سویا ہوا شخص مُردوں کو خواب میں زندہ دیکھتا ہے۔۔
 
آخری تدوین:
از ما دیگر حکایتِ عقل و خرد مپرس
چوں دادہ ایم دین ز دست و اختیار ز کف
(خوشحال خان خٹک)
ہم سے مزید عقل و خرد کی حکایت کے بارے میں مت پوچھو کہ ہم دین کو ہاتھوں سے کھو بیٹھے ہیں اور اختیار کو کف سے۔
 

حسان خان

لائبریرین
اشک را در پرده‌های چشمِ تر پیچیده‌ام
ساده‌لوحی بین که در کاغذ شرر پیچیده‌ام
(صائب تبریزی)

میں نے (اپنی) چشمِ تر کے پردوں میں اشک کو لپیٹا ہوا ہے؛ (میری) سادہ لوحی دیکھو کہ میں نے کاغذ میں چنگاری کو لپیٹا ہوا ہے۔
 
Top