کوہی اگر زمانہ فرستد ہزار غم
از غم چہ غم چو رطلِ گراں را بیآفرید
(خوشحال خان خٹک)
کوہی! اگر زمانہ ہزار غم بھی پہنچائے تو غم سے کیا ڈر کہ غم ہی تو شراب کا بڑا پیالہ بناتی ہے۔
میری فہم کے مطابق اس شعر کا اردو میں یہ مطلب نکل رہا ہے:
اے کوہی! خواہ زمانہ ہزار غم بھی پہنچائے تب بھی غم کا کیا غم کہ جب زمانے نے رطلِ گراں بھی ساتھ ہی خلق کیا ہے۔
'آفرید' زمانۂ ماضیِ مطلق شخصِ سومِ مفرد کا صیغہ ہے جس کا اردو میں لفظی مطلب 'اُس نے خلق کیا' ہے، جبکہ اس لفط کے شروع میں آنے والا 'ب' بائے تزئینی ہے جو شعر میں عموماً صرف وزن کی برقراری کے لیے استعمال ہوتا ہے اور جس کا اپنا کوئی خاص مطلب نہیں ہوتا۔ نیز، اس فعل کا فاعل مصرعِ اول میں آنے والا لفظ 'زمانہ' ہے۔ یہاں شاعر کی جانب سے 'غم' کو آفرینندۂ رطلِ گراں کہے جانے کے نحوی شواہد نہیں ہیں۔
علاوہ بریں، شعرِ مذکور میں 'چو' کا مطلب 'جب' ہے۔
پس نوشت: اس شعر میں 'آفریدن' کا فاعل خدائے تعالیٰ ہے کیونکہ یہ ایک غزلِ مسلسل کا شعر ہے جس کا مطلع یہ ہے:
ایزد چو چشمِ شوخ بتان را بیافرید
جادوی بردنِ دل و جان را بیافرید
اس تعبیر کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ مصدر 'آفریدن' عام طور پر خدا کے کارِ تخلیق کے سلسلے میں استعمال ہوتا ہے۔ لہٰذا، آپ کے پیش کردہ شعر کا اردو زبان میں یہ ترجمہ ہونا چاہیے:
اے کوہی! خواہ زمانہ ہزار غم بھی پہنچائے تب بھی غم کا کیا غم کہ جب خدا نے رطلِ گراں بھی ساتھ ہی خلق کیا ہے۔