محمد وارث

لائبریرین
می دہد خاکِ رہَش خاصیّتِ آبِ حیات
ورنہ زیں گردِ مذلّت خاکساراں را چہ حظ


بابا فغانی شیرازی

وہ اُس کی راہ کی خاک کو آبِ حیات کی خاصیت دے دیتا ہے، ورنہ اِس گردِ مذلت میں خاکساروں کے لیے کیا بھی حظ ہو سکتا ہے؟
 

حسان خان

لائبریرین
همه کس را اگر دردی بوَد خواهد که گردد کم
به غیر از من که دردِ عشق هر دم بیش می‌خواهم
(سلمان ساوجی)

جس کسی کو بھی اگر کوئی درد ہو تو وہ چاہتا ہے کہ کم ہو جائے؛ بجز میرے کہ میں (اپنا) دردِ عشق ہر دم زیادہ چاہتا ہوں۔

عمریست تا نشسته‌ام ای دوست بر درت!
نگذشت بر دلت که برین در چراست این؟
(سلمان ساوجی)

اے دوست! مجھے تمہارے در پر بیٹھے ہوئے اک عمر ہو گئی ہے؛ تمہارے دل میں (کبھی یہ بات) نہیں گذری کہ اس در پر یہ شخص کیوں ہے؟
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
بر فلک ہر شب رسانَم برقِ آہِ خویش را
تا بسوزم کوکبِ بختِ سیاہِ خویش را


اہلی شیرازی

ہر رات میں اپنی آہوں کی بجلی آسمان پر پہنچاتا ہوں تا کہ اپنے سیاہ نصیبوں کے ستارے کو اِس سے جلا ڈالوں۔
 
بہتر آن است ہلالی کہ نہاں مانَد راز
سِرِ خود فاش مکن، محرمِ اسرار کجاست
(ہلالی چغتائی)

بہتر یہ ہے ہلالی کہ راز چھپا ہی رہے۔ اپنا راز فاش مت کر، رازدار کدھر ہے(کہ جسے راز بتایا جائے)؟
 

حسان خان

لائبریرین
ز شعرِ دلکشِ حافظ کسی بوَد آگاه
که لطفِ طبع و سخن گفتنِ دری داند
(حافظ شیرازی)

حافظ کے دلکش اشعار کی ظرافت و لطافت کو وہی شخص درک کر پاتا ہے جو خوش و لطیف طبع کا مالک ہو اور زبانِ فارسی کی تمام باریکیوں اور زیبائیوں سے واقف ہو۔
 

محمد وارث

لائبریرین
از عالمِ پُرشور مجو گوہرِ راحت
کایں بحر بجز موجِ خطر ہیچ ندارد


صائب تبریزی

فتنہ و فساد و شورش و آشوب سے بھرے عالم میں راحت کے موتی مت تلاش کر کہ اِس دریا میں موجِ خطر کے سوا کچھ بھی نہیں۔
 
گر وصفِ شہ نبودے مقصودِ من فروغی
ایزد بہ من ندادے طبعِ غزل سرا را
(فروغی بسطامی)
اگر بادشاہ کی صفت کرنا میرا مقصد نہ ہوتا فروعی تو اللکہ مجھے غزل کہنے کی صلاحیت نہ دیتا۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
گر وصفِ شہ نبودے مقصودِ من فروعی
ایزد بہ من ندادے طبعِ غزل سرا را
(فروعی بسطامی)
اگر بادشاہ کی صفت کرنا میرا مقصد نہ ہوتا فروعی تو اللہ مجھے غزل کہنے کی صلاحیت نہ دیتا۔
تصحیح: شاعر کا نام فروغی بسطامی ہے۔
========

چشم اگر این است و ابرو این و ناز و شیوه این
الوداع ای زهد و تقویٰ الفراق ای عقل و دین

(کمال خُجندی)
چشم اگر ایسی ہے اور ابرو ایسا اور ناز و شیوہ ایسا تو زہد و تقویٰ کو الوداع اور عقل و دین کو الفراق!
 

سید عاطف علی

لائبریرین
ِہیں خمش کن خار ہستی را ز پائے دل بکن
تا ببینی در درون خویشتن گلزارہا
بس تو خاموشی سے دل کے پاؤں سے خود( پرستی ) کا کانٹا نکال دے ۔ اور پھر دیکھ تیرے اندر کیسے کیسے گلزار(کے جلوے) موجو د ہیں ۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ہر دلِ بے عشق اگر پادشاست
جز کفنِ اطلس و جز گور نیست


مولانا رُومی

ہر وہ دل کہ جو عشق کے بغیر ہے اگر بادشاہ بھی ہے تو ریشمی کفن کے سوا کچھ نہیں ہے اور قبر کے سوا کچھ نہیں ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
عقل گوید شش جهت حدّست و بیرون راه نیست
عشق گوید راه هست و رفته‌ام من بارها
(مولانا جلال‌الدین رومی)

عقل کہتی ہے کہ شش جہت حد ہے اور (اس سے) باہر راہ نہیں ہے؛ عشق کہتا ہے کہ راہ موجود ہے اور میں بارہا جا چکا ہوں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
رُسوا منم وگرنہ تو صد بار در دلم
رفتی و آمدی و کسے را خبر نشد


نظیری نیشاپوری

میں ہی رسوا ہوں وگرنہ تُو تو سو بار میرے دل میں آیا اور گیا اور کسی کو خبر تک نہ ہوئی۔
 

حسان خان

لائبریرین
به دل تخمِ غمِ عشق تو کارم
ندارم غیر ازین کاری و باری
(عبدالرحمٰن جامی)

میں دل میں تمہارے عشق کے غم کے بیج بوتا ہوں؛ اس کے سوا میرا کوئی مشغلہ نہیں ہے۔

به روزِ وصل ندانم چه تحفه پیشِ تو آرم
که صرف شد به فراقِ تو نقدِ عمرِ گرامی
(عبدالرحمٰن جامی)

میں نہیں جانتا کہ روزِ وصل تمہارے سامنے کیا تحفہ لاؤں کہ (میری) عمرِ گرامی کا نقد تو تمہارے فراق میں صرف ہو گیا ہے۔
 

تلمیذ

لائبریرین
بہ روزِ وصل ندانم چہ تحفہ پیشِ تو آرم
کہ صرف شد بہ فراقِ تو نقدِ عمرِ گرامی

واہ واہ، سبحان اللہ!
 

بے الف اذان

محفلین
بہر رنگے کہ خواہی جامہ مے پوش
من اندازِ قدت را مے شناسم
----------------------
تُو چاہے کس رنگ کا کپڑا پہن کر آ جائے ، میں تیرا قد پہچانتا ہوں اسلیے میں تجھے پہچان لونگا ۔

 
ہر چہ بود و ہست و خواہد بود نیز
مثل دارد جُز خداوندِ عزیز
(عطار نیشاپوری)


جو چیز بھی تھی، ہے اور نیز ہوگی، اپنی کوئی نہ کوئی مثال رکھتی ہے بجز خداوندِ عزیز کے(جو بے مثل و مثال ہے)
 

حسان خان

لائبریرین
چه دانستم که این سودا مرا زین سان کند مجنون
دلم را دوزخی سازد دو چشمم را کند جیحون
(مولانا جلال‌الدین رومی)

میں کیا جانتا تھا کہ یہ عشق مجھے اس طرح مجنوں کر دے گا، میرے دل کو ایک دوزخ بنا دے گا اور میری دو آنکھوں کو دریا کر دے گا۔
 

بے الف اذان

محفلین
کشتہء آن چشم مخمورم‌کہ مد سرمہ اش
تا سر کوی تغافل می‌ کشد دنبالہ را


بیدل

میں اُس چشمِ مخمور کا مارا ہوا ہوں کہ جس کے سُرمے کی لکیر تغافل سے جا کے ملتی ہے ( یعنی وہ نظرِ التفات اور تغافل کے بیچ کی لکیر ہے)
 

سید عاطف علی

لائبریرین
رحمت حق بہا نہ می جوید
رحمت حق بہا، نمی جوید

خدا کی رحمت (تجھ پر نزول کا )بہانہ دیکھتی ہے۔
خدا کی ررحمت (تجھ سے کچھ) طلب نہیں کرتی۔
 
Top