چونکہ صوفی تبسم کی مندرجہ بالا کتاب انٹرنیٹ پر دستیاب نہیں، اس لئے غالب کی اس غزل کے چند دوسرے اشعار کو ہنوز سمجھ نہ سکا۔ ان اشعار کا بھی ترجمہ کردیں۔
ہنگامہ سر آمد، چہ زنی لافِ تظلم؟
گر خود ستمی رفت، بمحشر نتواں گفت
کارے عجب افتاد بدیں شیفتہ ما را
مومن نبود غالب و کافر نتواں گفت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علاوہ ازیں یہ پوچھنا تھا کیا اس شعر کا یہ ترجمہ درست ہے؟
در گرم رَوَی سایہ و سرچشمہ نجوئیم
با ما سخن از طوبیٰ و کوثر نتواں گفت
(ہم سفرِ مسلسل میں سایہ اور پانی نہیں ڈھونڈتے۔ ہم سے درختِ طوبیٰ اور آبِ کوثر کے بارے میں کچھ نہ پوچھو۔)
هنگامه سرآمد چه زنی دم ز تظلّم
گر خود ستمی رفت به محشر نتوان گفت
محبت ایک ہنگامہ ہے، بپا ہوا اور ختم ہو گیا۔ اب اُس کے جور و ستم کے ہاتھوں دادرَسی کے لیے فریاد کیسی؟ اگر واقعۃً کوئی ستم ہوا بھی ہے تو یہ وہ ستم ہے جسے محشر میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔
در گرمرَوی سایه و سرچشمه نجوییم
با ما سخن از طوبیٰ و کوثر نتوان گفت
مولانا حالی فرماتے ہیں۔
"ہم کو آگے جانے کی جلدی ہے۔ ہم سایہ اور سرچشمہ یعنی طوبیٰ اور کوثر پر آرام نہیں لے سکتے۔"
مسافر چلتے چلتے جب تھک جاتے ہیں تو کسی سایہ دار درخت یا چشمے کے کنارے دم لیتے ہیں اور پانی پی کر پیاس بجھاتے ہیں۔ مرزا غالب کہتے ہیں کہ ہم وہ تیز رفتار مسافر ہیں کہ طوبیٰ اور کوثر پہ نہیں ٹھہرتے۔ منزل پہ پہنچنے کا شوق ہمیں کشاں کشاں لے جا رہا ہے جو ان دونوں سے کہیں آگے ہے۔
منظر اک بلندی پر اور ہم بنا سکتے
عرش سے پرے ہوتا کاشکے مکاں اپنا
کاری عجب افتاد بدین شیفته ما را
مومن نبوَد غالب و کافر نتوان گفت
ایک عجیب مجنوں سے ہمارا واسطہ آ پڑا ہے۔ غالب مومن نہیں مگر اُسے کافر بھی نہیں کہا جا سکتا۔
غالب کی ظاہری زندگی، مومن کی سی نہیں تھی لیکن اس کے اشعار سے جو بالخصوص خدا کو خطاب کر کے کہے گئے ہیں، اُس کے ایمان اور خلوص کا پتا چلتا ہے اور یوں بھی کسی کلمہ گو کو کافر نہیں کہا جا سکتا۔
دیکھا اسد کو خلوت و جلوت میں بارہا
دیوانہ گر نہیں ہے تو ہشیار بھی نہیں
ماخذ: شرحِ غزلیاتِ غالب (فارسی)، جلد اول
مصنف: صوفی غلام مصطفیٰ تبسم