محمد وارث

لائبریرین
قطعہ

طعنہ بر من مزن بہ صورتِ زشت
اے تہی از فضیلت و انصاف
تن بوَد چوں غلاف، جاں شمشیر
کار شمشیر می کند نہ غلاف


مولانا عبدالرحمٰن جامی ۔ (بہارستان)

مجھے بد صورتی کا طعنہ نہ مار، اے فضیلت اور انصاف سے خالی شخص کیونکہ جسم غلاف کی طرح ہوتا ہے اور جان شمشیر کی طرح اور اصل کام شمشیر کرتی ہے نہ کہ غلاف۔
 

حسان خان

لائبریرین
بی مهرِ چاریار در این پنج روزه عمر
نتوان خلاص یافت از این ششدرِ فنا
(خاقانی شروانی)

(نبی کے) چار یاروں کی محبت کے بغیر اِس پنج روزہ عمر میں اِس ششدرِ فنا (یعنی شش جہتی دنیائے فناپذیر) سے نجات و رہائی نہیں پائی جا سکتی۔
 

حسان خان

لائبریرین
از دفترِ وصالِ تو چون طفلِ خودنما
یک حرف خوانده‌ایم و به صد جا نوشته‌ایم
(شکیبی اصفهانی)

ہم نے تمہارے وصال کے کتابچے سے خودنما بچّے کی طرح ایک حرف پڑھا ہے اور سو جگہوں پر لکھا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ہمیشہ می خَلَد ایں آرزو مرا در دل
کہ خار ہائے رہِ اُو کنم بہ مژگاں جمع


واقف لاہوری

ہمیشہ یہی خواہش میرے دل میں (کانٹے کی طرح) چُبھتی ہے کہ میں اُس کی راہ کے سارے کانٹے اپنی پلکوں سے اکھٹے کردوں۔
 

حسان خان

لائبریرین
ز عمر هر چه به جز عشق، پوچ و برباد است
مرا ز پندِ ادیبان، همین سخن یاد است
(محسن مردانی)

مجھے ادیبوں کی نصیحت میں سے یہی بات یاد ہے کہ عمر میں عشق کے سوا جو کچھ بھی ہے وہ بے کار اور برباد ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
من غمِ دل گویم و تو ہم چناں مشغولِ ناز
تو بشہرِ دیگر و من در بیابانے دگر


امیر خسرو

میں غمِ دل کہتا ہوں اور تو اپنے ہی ناز میں مشغول ہے (یہ گویا ایسے ہی ہے کہ) تُو کسی اور شہر (کی رنگینیوں) میں مشغول ہے اور میں کسی اور بیاباں میں (بھٹک رہا) ہوں۔
 
عنوان "سلام رساندن" پر چند اشعار۔

من اے صبا رہِ رفتن بکوئے دوست ندانم
تو مے روی بسلامت،
سلامِ من برسانید
(شیخ سعدی شیرازی)

اے صبا! میں دوست کی گلی کی طرف جانے والا راستہ نہیں جانتا۔ تو سلامت سے جارہا ہے، میرا سلام پہنچادو۔

گر بہ سرِ منزلِ سلمیٰ رسی اے بادِ صبا
چشم دارم کہ
سلامے برسانی از منَش
(حافظ شیرازی)

اے بادِ صبا! اگر سلمیٰ کی منزل پر پہنچو، تو میں امید رکھتا ہوں کہ میرا سلام اسے پہنچادے۔
پیامِ من برسانی بداں صفت کہ تو گوئی
سلامِ من برسانی بداں زباں کہ تو دانی
(اوحدی )

(اے صبا) میرا پیغام اس صفت میں پہنچا کہ جو تو جانتا ہے۔ میرا سلام اسے اس زبان میں پہنچاو جو کہ صرف تو جانتا ہے۔
ببوس خاکِ درَش وانگہ ار مجال بود
سلامِ من برسان و پیامِ من بگذار
(خواجوی کرمانی)

اس کے در کی خاک کو بوسہ دو اور اگر ہوسکے تو میرا سلام پہنچادینا اور میرا پیغام دے دینا۔
ایا صبا برساں تحفہء درود و سلام
ز کمترینِ خلائق بہ بہترینِ انام
(محتشم کاشانی)

اے صبا! ہم کمتر مخلوق سے اس بہتر مخلوق کو درود و سلام کا تحفہ بھیج دو۔
نسیمِ صبح! سلامم بہ دلستاں برساں
پیامِ بلبلِ عاشق بہ گلستاں برساں
(سلماں ساوجی)

اے نسیمِ صبح! میرا سلام محبوب کو پہنچادو۔بلبل کا پیغام گلستاں کو پہنچادو۔
 

حسان خان

لائبریرین
به غیر از بوسه کز تکرار رغبت را کند افزون
کدامین قند را دیگر مکرر می‌توان خوردن؟
(صائب تبریزی)

بوسے کے سوا، کہ جس کی تکرار رغبت میں اضافہ کر دیتی ہے، کون سی مٹھائی کو پھر بار بار کھایا جا سکتا ہے؟
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
آرزو مُرد و جوانی رفت و عشق از دل گریخت
غم نمی‌گردد جدا از جانِ مسکینم هنوز
(رهی معیّری)

آرزو مر گئی، جوانی چلی گئی اور عشق دل سے فرار کر گیا، (لیکن) غم میری جانِ مسکین سے ہنوز جدا نہیں ہوتا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
غافل مشو ز حالِ اسیرے کہ یک نفَس
از جلوۂ خیالِ تو غافل نمی شود


بابا فغانی شیرازی

اپنے اسیر کے حال سے غافل نہ رہ کہ وہ (بیچارہ) تو ایک لمحے کے لیے بھی تیرے خیال کے جلوے سے غافل نہیں رہتا۔
 

حسان خان

لائبریرین
از آن به وعدهٔ وصلم امیدوار کند
که آنچه هجر نکرده‌ست انتظار کند
(ملک قمی)

وہ وصل کے وعدے سے مجھے اس لیے امیدوار کرتا ہے تاکہ جو کچھ ہجر نے نہیں کیا ہے، وہ انتظار کر دے۔

آفتابِ روزِ محشر بیشتر می‌سوزدش
هر که اینجا درد و داغِ عشق کمتر می‌کشد
(صائب تبریزی)

جو شخص بھی یہاں عشق کا درد و داغ کمتر اٹھاتا ہے، اُسے روزِ محشر کا آفتاب بیشتر جلائے گا۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
ہر کرا جامہ ز عشقے چاک شد
اُو ز حرص و عیب کُلّی پاک شد


مولانا رُومی (مثنوی)

ہر وہ کہ جس کا جامہ عشق میں چاک ہوا (وہ عشق میں دنیا سے بیگانہ ہوا) وہ حرص اور عیبوں سے بالکل پاک ہوا۔
 

حسان خان

لائبریرین
ز گلزارِ جِنان گر نشنوم روزِ جزا بویت
برآرم آهی و آتش زنم گل‌های جنت را

(ملک قمی)
اگر بہ روزِ جزا میں جنت کے گلزار میں تمہاری بُو نہ پاؤں تو میں ایک آہ بلند کروں گا اور جنت کے گُلوں کو آگ لگا دوں گا۔

کم نگردد ذرّه‌ای سوزِ دلِ شیدا مرا
گر دهی هر دم هزاران غوطه در دریا مرا

(ملک قمی)
اگر تم ہر دم مجھے دریا میں ہزاروں غوطے دو تو بھی میرے دلِ شیدا کا سوز ذرّہ برابر کم نہ ہو گا۔

سرگرانی‌های حُسن از پا درآرد کوه را
من کِیَم باری که باشد تابِ استغنا مرا

(ملک قمی)
حُسن کی بے اعتنائیاں اور خودپسندیاں تو کوہ کو مغلوب کر کے زمین پر گرا دیتی ہیں؛ پس میں کون ہوں کہ مجھے بے نیازی کی تاب ہو؟

اعتبارم بین که گر یک لحظه گردم ناپدید
می‌دوَد هر سو بلایی تا کند پیدا مرا

(ملک قمی)
میری قدر و منزلت دیکھو کہ اگر میں ایک لمحہ بھی غائب ہو جاؤں تو کوئی بلا مجھے ڈھونڈ نکالنے کے لیے ہر طرف دوڑتی ہے۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
زاں پیشتر کہ عقل شود رہنموں مرا
عشقِ تو رہ نمود بکوئے جنوں مرا


ہلالی چغتائی

اِس سے پیشتر کہ عقل میرا راہنما بنتی، تیرے عشق نے مجھے کوئے جنوں کی راہ دکھا دی۔
 

حسان خان

لائبریرین
به زمین بُرد فرو خجلتِ محتاجانم
بی‌زری کرد به من آنچه به قارون زر کرد

(واعظ قزوینی)
حاجت مندوں (کے سامنے مفلسی و ناداری) کی شرمندگی مجھے زمین میں دھنسا گئی؛ بے زری نے میرے ساتھ وہ کیا جو قارون کے ساتھ زر نے کیا تھا۔

× یہ شعر صائب تبریزی سے بھی منسوب ہے۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
نہال سرکش و گُل بیوفا و لالہ دو رو
دریں چمن بہ چہ اُمّیدآشیاں بندم


ابوطالب کلیم کاشانی

نہال سرکش (سر اٹھانے والا) ہے، گُل بے وفا ہے اور لالہ دو رُخا ہے، اب ایسے چمن میں آخر کس امید پر آشیانہ بناؤں۔
 
ما قوتِ پرواز نداریم وگرنہ
عمریست کہ صیاد شکستہ ست قفس را

(رفیع مشہدی)
ہم طاقتِ پرواز نہیں رکھتے وگرنہ شکاری کو پنجرہ توڑے کافی عرصہ گزرچکا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
سوختم در آتشِ حسرت چو هندو بارها
خالِ هندوی بتان از بختِ بد رامم نشد

(نقیب خان طغرل احراری)
میں آتشِ حسرت میں ہندوؤں کی طرح بارہا جل گیا لیکن بُتوں (معشوقوں) کا سیاہ خال میری بدبختی کے سبب میرا مطیع نہ ہو پایا۔

گرچه نوشیدم بسی پیمانه‌های زهرِ غم
از مَیِ عشرت ولی یک جُرعه در جامم نشد

(نقیب خان طغرل احراری)
اگرچہ میں نے زہرِ غم کے بہت پیمانے نوش کیے لیکن مئے عشرت کا ایک گھونٹ بھی میرے جام میں نہ آ پایا۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
اين جہان كوه است و فعل ما ندا
سوي ما آيد نداہا را صدا
فعل تو كان زايد از جان و تنت
ہمچو فرزندي بگيرد دامنت !

یہ جہاں ایک وادی ہے اور ہمارے اعمال آواز (وں کی طرح) ہیں۔
یہ ہمارے ہی پاس بازگشت کی طرح لوٹتے ہیں۔
جو اعمال تم سے سرزد ہوتے ہیں وہ بچےکی طرح تمھارا ہی دامن پکڑتے ہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
جمالِ اوست به هر شش جهت تماشا کن
نقاب نیست خدا را تو دیده پیدا کن

(میر سید لطف‌الله احمدی)
اُس کا جمال ہر شش جہت میں ہے، تماشا کرو۔۔۔ خدا کو نقاب نہیں ہے، تم دیدۂ بینا پیدا کرو۔

آن قدر فیضی که من از بی‌زبانی دیده‌ام
ترسم آخر شکرِ خاموشی کند گویا مرا

(واعظ قزوینی)
میں نے (اپنی) بے زبانی کی بدولت اس قدر فیض دیکھا ہے کہ میں ڈرتا ہوں کہ آخرکار خاموشی کی شکرگزاری مجھے گویا کر دے گی۔

صد حیف که ما پیرِ جهان‌دیده نبودیم
روزی که رسیدیم به ایامِ جوانی

(واعظ قزوینی)
صد حیف کہ جس روز ہم نے جوانی میں قدم رکھا، اُس روز ہم جہاں دیدہ بوڑھے نہ تھے (تاکہ جوانی کی لغزشوں سے محفوظ رہتے)۔
 
Top