سید عاطف علی

لائبریرین
چوں شہادت دولتےدر عالم ایجاد نیست
عاشقاں بال ہما دانند بر سر تیغ را
صائب

شئےنہیں عالم میں اک جذبِ شہادت کی مثیل
سر پہ دیوانوں کے ہےشمشیربھی " ظلّ ِہما"

جراءت ِکاوش منظوم ۔
راقم۔سید عاطف علی
 

حسان خان

لائبریرین
امروز چو ہر روز خرابیم خراب
مگشا درِ اندیشہ و بر گیر رباب
صد گونہ اذان است و رکوع است و سجود
آں را کہ جمالِ دوست باشد محراب
اسداللہ خان صاحب، اس دھاگے میں فارسی اشعار کو اردو ترجمے کے ساتھ پیش کرنے کی روایت ہے تاکہ فارسی نہ جاننے والے اور فارسی سیکھنے والے بھی فائدہ اٹھا سکیں۔ :)
 
اسداللہ خان صاحب، اس دھاگے میں فارسی اشعار کو اردو ترجمے کے ساتھ پیش کرنے کی روایت ہے تاکہ فارسی نہ جاننے والے اور فارسی سیکھنے والے بھی فائدہ اٹھا سکیں۔ :)
حسان خان صاحب اس روایت سے بخوبی واقف ہوں، اپنی کم مائیگی آڑے آئ ہے، جب بھی کچھ سمجھ آیا، ضرور ترجمہ کر دونگا۔
 

حسان خان

لائبریرین
گفتم روم که چشمت مایل به خوابِ ناز است
بگشود زلف و گفتا بنشین که شب دراز است

(فردی زَنْد شیرازی)
میں نے کہا "چلتا ہوں کہ تمہاری آنکھ خوابِ ناز پر مائل ہے۔" اُس نے (اپنی) زلفیں کھولیں اور کہا "بیٹھو کہ شب دراز ہے۔"
 

کاشف اختر

لائبریرین
اندازے سے ترجمہ کر رہا ہوں اگر کوئی غلطی ہو تو نشاندہی کر دیں -
(میں) جس راہ پر بھی چلتا ہوں زندگی کا غبار میرے آڑے آتا ہے - یارب ایسی خاکِ پریشاں کو مجھےکب تک برداشت کرنا پڑے گا-


یا خدا خاکِ پریشاں از کجا برداشتم ..۔۔۔مصرع اس طرح ہونا چاہیے ..۔۔۔۔۔۔۔
لفظ پریشاں کا بھی کوئی ترجمہ کریں ..۔۔۔۔۔۔۔
 

محمد وارث

لائبریرین
بے فنائے خود میسّر نیست دیدارِ شما
می فروشد خویش را اوّل خریدارِ شما


میر غلام علی آزاد بلگرامی

اپنے آپ کو فنا کیے بغیر تمھارا دیدار میسر نہیں آتا اور تمھارا خریدار پہلے اپنے کو فروخت کرتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
کشتیِ تدبیرِ ما طوفانیِ حکمِ قضاست
جز دمِ تسلیم اینجا لنگری درکار نیست

(بیدل دهلوی)
ہماری کشتیِ تدبیر حکمِ قضا کے طوفان میں پھنسی ہوئی ہے؛ یہاں آہِ تسلیم کے سوا کوئی لنگر درکار نہیں ہے۔

لغت نامۂ دہخدا میں 'دمِ تسلیم' کے ذیل میں یہ معانی درج ہیں:
کنایہ از خاموشی است
تفویض
رضاطلبی و فرمانبرداری
ہنگامِ مردن؛ وقتِ مردن و جان سپردن


================

شب که سروِ قامتِ او شمعِ این کاشانه بود
تا سحرگه برگ‌ریزانِ پرِ پروانه بود

(صائب تبریزی)
جس شب اُس کا سروِ قامت اِس کاشانے کی شمع تھا، اُس شب صبح کے وقت تک پروانوں کے پروں کی برگ ریزی جاری تھی۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
غالب بجہاں بادشہاں از پئے دادند
فرماں دہِ بیداد گرے را چہ کند کس


مرزا غالب

غالب، دنیا میں بادشاہ اور حکمران انصاف کرنے کے لیے ہی ہوتے ہیں، لیکن اگر بادشاہ اور فرمانروا ہی ظالم ہوں اور انصاف نہ کریں تو پھر کوئی کیا بھی کرے؟
 

حسان خان

لائبریرین
من رافضی نیَم که کنم پشت بر عتیق
یا خارجی که روی بتابم ز مرتضیٰ

(خواجو کرمانی)
میں رافضی نہیں ہوں کہ عتیق پر پُشت کر لوں؛ اور نہ میں خارجی ہی ہوں کہ مرتضیٰ سے رخ موڑ لوں۔
× عتیق = حضرتِ ابوبکر (رض) کا لقب

سینهٔ پُرحسرتی دارم که از اندوهِ او
تا به نزدیکِ لب آرم خنده را شیون شود

(نظیری نیشابوری)
میرا سینہ ایسا پُرحسرت ہے کہ جب تک میں اپنے لب کے نزدیک ہنسی لاتا ہوں، وہ سینے کے غم کے سبب نالہ بن چکی ہوتی ہے۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
از بحرِ وجود و صدفِ سینۂ آدم
مقصودِ خدا گوہرِ یکدانۂ عشق است


اہلی شیرازی

اِس وجود کے بحر اور انسان کے سینے کے صدف سے خدا کا مقصود عشق کا بے مثل و بے نظیر گوہر ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
شبِ وصل است و می‌نالم که شاید چرخ پندارد
که باز امشب شبِ هجر است و دیر آرد به پایانش

(سحاب اصفهانی)
اگرچہ شبِ وصل ہے لیکن میں پھر بھی نالہ کر رہا ہوں تاکہ شاید چرخ یہ گمان کرے کہ آج رات پھر شبِ ہجر ہے اور اس باعث وہ اس شب کو دیر سے اختتام کی جانب لائے۔

(رباعی)
ای داده به باد عمر از نادانی
تو قیمتِ عمرِ خویش کَی می‌دانی؟
فردا، که به زیرِ خاک تنها مانی
گویی، که کنم توبه، ولی نتوانی

(نقیب خا‌ن طغرل احراری)
اے (اپنی) عمر کو نادانی سے برباد کر دینے والے! تم اپنی عمر کی قیمت کب جانو گے؟۔۔۔ کل، کہ جب تم زیرِ خاک تنہا رہ جاؤ گے، کہو گے کہ میں توبہ کرتا ہوں، لیکن نہیں کر پاؤ گے۔

هر که را باشد نظر تُرکِ قباپوشِ مرا
آفرین گوید تحمل کردنِ هوشِ مرا

(نقیب خا‌ن طغرل احراری)
جس کی بھی نظر میرے تُرکِ قباپوش پر پڑتی ہے وہ مجھے اپنے ہوش کو تحمل کرنے پر آفریں کہتا ہے۔
 
مشو دلتنگ اگر یک چند اشکت بی‌اثر باشد
که سازد خاک را گلزار، آب آهسته آهسته

اگر تمہارے کچھ آنسو بے اثر گئے ہیں تو رنجیدہ مت ہو؛ کیونکہ پانی خاک کو آہستہ آہستہ ہی گلزار بناتا ہے۔

(صائب تبریزی)
 

محمد وارث

لائبریرین
اے ہم نفَساں رفتن ازیں غمکدہ کم نیست
پژ مردہ مباشید کہ بشگفتم و رفتم


عرفی شیرازی

اے ہم نفسو، اِس دنیا کے غمکدے سے چلے جانا بھی تو کچھ کم (اہم بات) نہیں ہے، مرجھاؤ مت اور افسردہ مت ہو کہ میں (پھول کی طرح) کھِلا اور (ہنستے ہنستے ہی) چلا گیا۔
 

حسان خان

لائبریرین
(رباعی)
برهم زده گرگ این گَله را، چوپان کو؟
وین پست و بلندِ دهر را سوهان کو؟
کافر شده ابنای زمان، نوح کجاست؟
فاسد شده اجزای زمین، طوفان کو؟

(عهدی ساوجی)
بھیڑیے نے اس گَلّے کو منتشر کر دیا ہے، چوپان کہاں ہے؟ اور دہر کے اس بلند و پست (کو ہموار‌ کرنے) کے لیے سوہان کہاں ہے؟ اَبنائے زمانہ کافر ہو گئے ہیں، نوح کدھر ہے؟ اجزائے زمین فاسد ہو گئے ہیں، طوفان کہاں ہے؟
× سوہان = چیزوں کو گھس کر صاف کرنے کا خاردار یا دندانہ دار آلہ، ریتی، چھینی۔
 
(کرمِ کتابی)
شنیدم شبی در کتب خانهٔ من
به پروانه می‌گفت کرمِ کتابی
به اوراقِ سینا نشیمن گرفتم
بسی دیدم از نسخهٔ فاریابی
نفهمیده‌ام حکمتِ زندگی را
همان تیره روزم ز بی‌آفتابی
نکو گفت پروانهٔ نیم سوزی
که این نکته را در کتابی نیابی
تپش می‌کند زنده‌تر زندگی را
تپش می‌دهد بال و پر زندگی را


ایک رات میں نے سنا؛ میرے کتب خانے میں ایک کتابی کیڑا پروانے سے کہہ رہا تھا:
میں بوعلی سینا کی کتابوں میں رہا، فارابی کے بہت سارے نسخے دیکھے، مگر میں زندگی کی حکمت کو نہیں پا سکا۔ [اور] بے آفتابی کی وجہ سے میرے سارے دن بھی [اُسی طرح] تاریک ہیں۔
ادھ جلے پروانے نے خوب کہی کہ یہ نسخہ تجھے کتابوں میں نہیں ملے گا؛ تپش ہے جو زندگی کو زندہ تر کرتی ہے اور بال و پر دیتی ہے۔
(علامه اقبال)
 

حسان خان

لائبریرین
دل در این ویرانه آغوشِ امیدی وا نکرد
ورنه با این فقر من هم کشوری می‌داشتم

(بیدل دهلوی)
دل نے اِس ویرانے میں کوئی آغوشِ امید وا نہ کی ورنہ اِس فقیری کے باوجود میں بھی کسی مملکت کا مالک ہوتا۔
 
آخری تدوین:
Top