ہرکس کہ بہ ازدواج پابند شود
معروض بہ داغ و دردِ فرزند شود
دہقنِ زمانہ بر کسے مے خندد
کز کِشتنِ تخم مرگ خُرسند شود
(استاذ خلیل اللہ خلیلی)
آخری شعر ذرا سمجھادیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
ہرکس کہ بہ ازدواج پابند شود
معروض بہ داغ و دردِ فرزند شود
دہقنِ زمانہ بر کسے مے خندد
کز کِشتنِ تخم مرگ خُرسند شود
(استاذ خلیل اللہ خلیلی)
آخری شعر ذرا سمجھادیں۔

(رباعی)
هر کس که به ازدواج پابند شود
معروض به داغ و دردِ فرزند شود
دهقانِ زمانه بر کسی می‌خندد
کز کِشتنِ تخمِ مرگ خرسند شود

(استاد خلیل‌الله خلیلی)
جو شخص بھی ازدواج سے دوچار ہوتا ہے، اُسے فرزند کے داغ و درد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔۔۔ دہقانِ زمانہ اُس شخص پر ہنستا ہے جو موت کا بیج بونے پر خوش ہوتا ہے۔
(یعنی چونکہ ولادت موت کا پیش خیمہ ہے لہٰذا ازدواج در حقیقت تخمِ مرگ بونے جیسا ہی ہوا۔)
× یہاں دہقانِ زمانہ کے درمیان 'اضافت تشبیہی' ہے یعنی زمانے کو دہقان سے تشبیہ دی گئی ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
هزاره کیست، پشتون کیست، تاجک چیست، ازبک چیست
اساسِ فرقه‌سازی‌های استعمار را بشکن
تو چون فرزندِ اسلامی شعارت نیست جز توحید
ز محرابِ محمد پرچمِ کفار را بشکن

(افغان شاعر استاد خلیل‌الله خلیلی)
یہ ہزارہ، پشتون، تاجک اور ازبک کے نام پر نزاع کیا ہے؟ استعمار کی فرقہ سازیوں کی اساس کو توڑ ڈالو۔۔۔ تم چونکہ فرزندِ اسلام ہو لہٰذا توحید کے سوا تمہارا کوئی اور شعار نہیں ہے۔۔۔ محمد (ص) کی محراب سے کفار کا پرچم پارہ پارہ کر ڈالو۔

(رباعی)
آن تخمِ حقیقت که نبوت شجر است
پیشِ جمعی که دینشان معتبر است
بوبکرش ریشه، شاخ و برگ است عمر
عثمان شگوفه، مرتضایش ثمر است

(بیدل دهلوی)
جن لوگوں کا دین معتبر ہے اُن کے نزدیک تخمِ حقیقت کے شجرِ نبوت کی جڑ ابوبکر (رض)، اُس کی شاخ و برگ عمر (رض)، اُس کا شگوفہ عثمان (رض)، اور اُس کا ثمر علی (رض) ہیں۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
(رباعی)
زاهد بودم، ترانه‌گویم کردی
سرحلقهٔ بزم و باده‌جویم کردی
سجّاده‌نشینِ باوقاری بودم
بازیچهٔ کودکانِ کویم کردی

(مولانا جلال‌الدین رومی)
میں زاہد تھا، تم نے مجھے ترانہ گو کر دیا۔۔ اور تم نے مجھے بزمِ طرب کا سرخیل اور بادہ جو کر دیا۔۔۔ میں ایک باوقار سجّادہ نشیں تھا، تم نے مجھے گلی کے بچوں کا بازیچہ کر دیا۔
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
خُم صفت عزلت نشین گوشہء میخانہ ایم
ہمچو صائب ، دائم از شہرت گریزانیم ما

صائب کی طرح ہم ہمیشہ شہرت سے دور رہتے ہیں ۔ اورخُم کی طرح میخانے کے گوشے میں عزلت گزین رہتے ہیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
با گونہ گونہ مردمِ عالم نشستہ ام
سیرِ بہشت و دوزخ و اعراف کردہ ام


ابوالفیض فیضی دکنی

میں نے اِس دنیا کے گونا گوں اور رنگ رنگ کے لوگوں کے ساتھ نشست کی ہے، گویا میں نے بہشت اور دوزخ اور اعراف کی سیر کر لی ہے۔
 
'انصتوا' را گوش کن خاموش باش
چون زبانِ حق نگشتی، گوش باش


(خدا کا حکم) 'انصتوا' سُن اور خاموش رہ۔ جب تک تُو زبانِ حق نہیں بنتا، کان (سامع) بنا رہ۔

- رومی

وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُواْ لَهُ وَأَنصِتُواْ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (الاعراف)
"اور جب قرآن پڑھا جائے تو توجہ سے سنا کرو اور خاموش رہا کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے"
 

محمد وارث

لائبریرین
من خاکم و من گردم، من اشکم و من دردم
تو مھری و تو نوری، تو عشقی و تو جانی


رھی معیری

میں خاک ہوں تُو آفتاب ہے، میں گرد ہوں تُو نور ہے، میں اشک ہوں تُو عشق ہے، میں درد ہوں تُو جان ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
مرا نامد حسد بر هیچ چیزی لیک بُردم رشک
که رسمِ عشق پیش از من درین عالم چرا بوده‌ست

(سلطان سلیم خان اول)
مجھے کسی چیز پر حسد محسوس نہیں ہوا لیکن میں نے اس بات پر ضرور رشک کیا کہ رسمِ عشق اِس عالم میں مجھ سے قبل کیوں موجود رہی ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
خامہ را احوالِ ما تقریر کردن مشکل است
زانکہ اُو را بر زباں زخم است و ما را در دل است


شیخ نورالعین واقف لاہوری (بٹالوی)

قلم کے لیے ہمارے حالات بیان کرنا نا ممکن ہے، کیونکہ اُس کا زخم (فقط) زبان پر ہے جب کہ ہمارے دل میں زخم ہے۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
خامہ را احوالِ ما تقریر کردن مشکل است
زانکہ اُو را بر زباں زخم است و ما را در دل است


شیخ نورالعین واقف لاہوری (بٹالوی)

قلم کے لیے ہمارے حالات بیان کرنا نا ممکن ہے، کیونکہ اُس کا زخم (فقط) زبان پر ہے جب کہ ہمارے دل میں زخم ہے۔
خامے کے لئے تحریر کے بجائے " تقریر کردن مشکل است" بہت اچھا استعمال ہوا ہے زخم ِ زبان کی رعایت سے ۔ واہ!
 

محمد وارث

لائبریرین
خامے کے لئے تحریر کے بجائے " تقریر کردن مشکل است" بہت اچھا استعمال ہوا ہے زخم ِ زبان کی رعایت سے ۔ واہ!

درست فرمایا آپ نے، اساتذہ کا کلام معنی آفرینیوں سے خالی نہیں ہوتا۔ تقابل کے لحاظ سے ایک شعر استادِ سخن سعدی شیرازی کا بھی دیکھیے۔

سارباں آہستہ رو، آرامِ جاں در محمل است
اشتراں را بار بر پشت است و ما را بر دل است


شیخ سعدی شیرازی

اے ساربانو، آہستہ چلو کہ ہمارا آرامِ جاں، ہمارا محبوب محمل میں ہے، اُونٹوں کی تو پشت پر بوجھ ہے اور ہمارے دل پر بوجھ ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
در دام غمت چو مرغ وحشی
می پیچم و سخت تر شود دام

شیخ سعدی ۔
میں ترے غم میں نا مانوس پرندے کی طرح (تڑپ رہا)ہوں۔(اور)
جتنا تڑپتا ہوں یہ دام اتنا ہی سخت تر ہوجاتاہے۔
 

شکیب

محفلین
محمد وارث بھائی فارسی سیکھنے کے لیے کوئی کتاب مل سکتی ہے؟ آپ نے کیسے سیکھی تھی؟ آسان اردو الفاظ پر (جو درحقیقت فارسی ہی ہوتے ہیں) مشتمل فارسی مجھے سمجھ جاتے ہیں، البتہ فارسی کا چوں است کردم داند کردن وغیرہ نہیں۔:ڈ
خیال رہے کہ صرف سمجھنا سیکھنا ہے، بولنا سکھانے والی کتاب کا اسٹینڈرڈ اونچا ہوجاتا ہے۔۔۔۔
 

محمد وارث

لائبریرین
محمد وارث بھائی فارسی سیکھنے کے لیے کوئی کتاب مل سکتی ہے؟ آپ نے کیسے سیکھی تھی؟ آسان اردو الفاظ پر (جو درحقیقت فارسی ہی ہوتے ہیں) مشتمل فارسی مجھے سمجھ جاتے ہیں، البتہ فارسی کا چوں است کردم داند کردن وغیرہ نہیں۔:ڈ
خیال رہے کہ صرف سمجھنا سیکھنا ہے، بولنا سکھانے والی کتاب کا اسٹینڈرڈ اونچا ہوجاتا ہے۔۔۔۔

جی اس کے لیے مطالعہ ضروری ہے۔ آپ فارسی گرائمر کی کوئی سی بھی کتاب خرید لیں۔ آپ نے جو الفاظ لکھے ہیں دراصل وہ افعال کے ساتھ صیغوں کی ضمیریں ہیں۔ مثال کے طور پر ایک مصدر ہے کردن یعنی کرنا۔ اس کے ساتھ کچھ حروف لگا کر یا گرا کر یہ زمانہ اور شخص دونوں کا مطلب بیان کرتے ہیں، ،مثلا اگر کردن سے نون گرا دیں تو کرد رہ جائے گا جس کا مطلب ہوگا، اُس ایک شخص نے کیا یعنی کرد صیغہ غائب واحد ماضی کو بیان کرے گا۔ اسی طرح کرد کے ساتھ م لگا کر کردم کر دیں تو اس کا مطلب ہے میں نے کیا یعنی صیغہ واحد متکلم ماضی بن جائے گا۔کردیم، صیغہ متکلم جمع ماضی، کردند صیغہ غائب جمع ماضی، کردی صیغہ حاضر یا مخاطب واحد ماضی یعنی تُو نے کیا۔ کردید صیغہ جمع حاضر ماضی۔ اسی طرح کردن سے مضارع کا صیغہ بھی بنتا ہے جو کن ہے، اور ضمیریں اس کے ساتھ لگیں گی، جیسے کنم میں کرتا ہوں، کنیم ہم کرتے ہیں، کنی تو کرتا ہے، کنید تم سب کرتے ہو، کند وہ کرتا ہے، کنند وہ کرتے ہیں۔ اسی طرح دیگر زمانوں کے گردانیں بھی بنتی ہیں۔

میرا مبلغ علم اتنا ہی تھا جتنا میں نے بیان کر دیا، فارسی مجھے ابھی تک نہیں آتی، پچھلے دس سالوں سے سیکھنے کی کوشش بہرحال کر رہا ہوں اور انشاءاللہ کرتا رہونگا۔
 

حسان خان

لائبریرین
خوبی ہمیں کرشمہ و ناز و خرام نیست
بسیار شیوہ ہست بتاں را کہ نام نیست


بابا فغانی شیرازی

فقط یہ کرشمہ، یہ ناز و انداز، یہ خرام ہی اُن کی خوبی نہیں ہے بلکہ حسیناؤں کے بہت سے طور طریقے اور شیوے ایسے ہیں کہ جن کا کوئی نام ہی نہیں ہے۔
جو ناز سے غمزے سے کسی طرح نہیں کم
ایسی بھی ہیں کچھ حُسن کی بے نام ادائیں
(خمار بارہ بنکوی)
 

حسان خان

لائبریرین
ساقی بده پیمانه‌ای زان مَی که بی‌خویشم کند
بر حسنِ شور‌انگیزِ تو عاشق‌تر از پیشم کند

(رهی معیّری)
اے ساقی! مجھے اُس شراب میں سے ایک پیمانہ تھماؤ جو مجھے بے خود کر دے اور جو مجھے تمہارے فتنہ انگیز حُسن پر پہلے سے زیادہ عاشق کر دے۔
 
دارم عجب ز نقشِ خیالش کہ چوں نرفت
از دیدہ ام کہ دمبدمَش کارِ شست و شوست
مجھے اس کے نقشِ خیالی پر تعجب ہے کہ وہ میری آنکھوں سے کیوں نہ مٹا کہ ان کا ہر دم کام دھونا اور صاف کرنا ہے

چندا‌ں گریستم کہ ہر آنکس کہ بر گذشت
از دیدہ ام چو دید رواں، گفت اینچہ جُوست

میں اتنا رویا کہ جو بھی گزرا، اس نے میری آنکھوں سے (سیلِ اشک) رواں دیکھا تو کہا کہ یہ کیا نہر ہے(یعنے آنکھوں پر نہر کا شبہ ہوتا ہے)۔

ما سر چو گَوئے بر سرِ کُوئے تو باختیم
واقف نشد کسے کہ چہ گویست و اینچہ کُوست
ہم نے تیریگلی میں گیند کی طرح جب سر ہار دیا، کسی کو بھی پتہ نہ چلا کہ یہ کیا گیند ہے اور یہ کون سی گلی ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
سیلی نخوری تا ز کفِ اہلِ زمانہ
چوں مہرۂ شطرنج مرو خانہ بخانہ


مُلا محمد طاہر غنی کاشمیری

تا کہ تُو دنیا کے لوگوں کے ہاتھوں سے تھپڑے (اور دھکے) نہ کھاتا پھرے، اِس لیے شطرنج کے مہروں کی طرح خانہ بخانہ (اور در بدر) مت پھر۔
 
Top