محمد وارث

لائبریرین
گرفتم آں کہ بہشتم دہند بے طاعت
قبول کردن و رفتن نہ شرط انصاف ست


(عرفی شیرازی)

میں نے مان لیا کہ مجھے بہشت بغیر عمل کے ہی مل جائے گی لیکن اسے قبول کرنا اور اس میں اسطرح جانا انصاف کے خلاف ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
بر زمینِ پاکِ ما یک سنگ نیست
کاندراں خونِ شہیدے رنگ نیست


ہماری پاک زمین پر کوئی پتھر ایسا نہیں ہے کہ جو کسی شہید کے خون سے رنگا ہوا نہیں۔


بر گُل و ریحانِ ما یک برگ نیست
کاندراں منقوش نامِ مرگ نیست


ہمارے کسی پھول کی کوئی پتی ایسی نہیں کہ جس پر موت کا نام رقم نہیں۔


کس نگیرد بوسہ از روئے یتیم
در شبستانِ غمِ ما جز نسیم


ہمارے شبستانِ غم میں بادِ سحر کے سوا یتیم کا منہ چومنے والا کوئی نہیں۔


(استاد خیلل اللہ خلیلی افغانستانی)
 

محمد وارث

لائبریرین
من خکم و من گردم من اشکم و من دردم
تو مہری و تو نوری تو عشقی و تو جانی


(شاہد افلکی)

میں خاک ہوں (تُو آفتاب ہے)، میں گرد و غبار ہوں (تُو نور ہے)، میں آنسو ہوں (تُو عشق ہے)، میں درد ہوں (تُو جان ہے)۔
 

محمد وارث

لائبریرین
تہی از ہائے و ہُو میخانہ بُودے
گِلِ ما از شرر بیگانہ بُودے
نَبُودے عشق و ایں ہنگامۂ عشق
اگر دل چوں خرد فرزانہ بُودے


(اقبال لاہوری)

ہائے و ہُو سے خالی میخانہ ہوتا، ہمارا جسم (مٹی) شرر سے بیگانہ ہوتا، نہ ہوتا عشق اور نہ یہ ہنگامۂ عشق، اگر دل (بھی) عقل کی مانند فرزانہ ہوتا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
رباعی

ہر روز دلم بزیرِ بارے دگرست

در دیدۂ من ز ہجر خارے دگرست
من جہد ہمی کنم، قضا می گوید
بیروں ز کفایتِ تو کارے دگرست


(حافظ شیرازی)

ہر روز میرا دل ایک نئے بوجھ کے تلے ہے، (ہر روز) میری آنکھ میں ہجر کا ایک نیا کانٹا ہے۔ میں جد و جہد کرتا ہوں اور تقدیر کہتی ہے، تیرے بس سے باہر ایک اور کام ہے۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
تو غنی از ہر دو عالم من فقیر
روز محشر عذر ہائے من پذیر
گر تُو می بینی حسابم ناگریز !
از نگاہ مصطفٰے پنہاں بگیر

(اقبال)
 

محمد وارث

لائبریرین
رباعی

سرمد گلہ اختصار می باید کرد
یک کار ازیں دو کار می باید کرد
یا تن برضائے یار می باید داد
یا قطع نظر ز یار می باید کرد


(سرمد شہید)

سرمد گلے شکوے کو مختصر کر، ان دو کاموں میں سے ایک کام کر، یا اپنے آپ کو یار کی رضا پر چھوڑ دے، یا (اگر ہو سکے تو) یار سے قطع نظر کر لے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
سلطنت سہل است، خُود را آشنائے فقر کُن
قطرہ تا دریا تواند شُد، چرا گوھر شَوَد


(شہزادہ دارا شکوہ قادری)

حکومت کرنا تو آسان ہے، اپنے آپ کو فقر کا شناسا کر، (کہ) قطرہ جب تک دریا میں نہ جائے گا، گوھر کیسے بنے گا؟
 

محمد وارث

لائبریرین
بستہ ام چشمِ امید از الفتِ اہلِ جہاں
کردہ ام پیدا چو گوھر در دلِ دریا کراں


(عبدالقادر بیدل)

میں نے دنیا والوں کی محبت کی طرف سے اپنی چشمِ امید بند کر لی ہے اور گوھر کی طرح سمندر کے دل میں اپنا ایک (الگ تھلگ) گوشہ بنا لیا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
بہرِ زن فرزند بہر در سوال
باز دارد حق تعالٰی از وصال


بشنو و شرمندہ خجل و رُوسیاہ
ہر مطالب طلب کن تو از اِلٰہ


(سلطان باہُو رح)

بیوی بچوں کیلیئے ہر در (در در) کا سوالی بن جانا، حق تعالٰی کے وصال سے باز رکھتا ہے۔

سُن (سوالی بن کر) شرمندہ خوار اور روسیاہ مت بن، تُو ہر مطلب اللہ ہی سے طلب کر۔
 

محمد وارث

لائبریرین
درمیانِ قعرِ دریا تختہ بندم کردہ ای
باز می گوئی کہ دامن تر مکن ہشیار باش


(شاعر۔ نا معلوم)

دریا کی منجدھار میں مجھے تختے پر باندھ کر چھوڑ دیا ہے اور پھر کہتے ہو کہ خبردار ہشیار رہنا تمھارا دامن تر نہ ہونے پائے۔

بہت عرصہ قبل کہیں پڑھا تھا کہ یہ شعر غالب کا ہے لیکن کلیاتِ غالب فارسی میں یہ شعر نہیں ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
کرا جوئی، چرا در پیچ و تابی؟
کہ او پیداست تو زیرِ نقابی
تلاشِ او کُنی، جز خود نہ بینی
تلاشِ خود کنی، جز او نہ یابی


(اقبال لاھوری)

کیا ڈھونڈتا ہے؟ کیوں (ہر وقت) پیچ و تاب میں رہتا ہے۔ کہ (جسکی تلاش ہے) وہ تو (ذرّے ذرّے) سے عیاں ہے اور تُو خود ہی پردے میں (محجوب) ہے۔ (اگر) اسکو تلاش کرے گا تو اپنے سوا کچھ نہ دیکھے گا، (اور اگر) اپنی تلاش کرے گا تو اس کے سوا کوئی اور نہ ملے گا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
بُوئے گُل، نالۂ دل، دودِ چراغِ محفل
ہر کہ از بزمِ تو برخاست، پریشاں برخاست


(عبدالقادر بیدل)

غالب نے کہا تھا کہ

طرزِ بیدل میں ریختہ لکھنا
اسد اللہ خاں قیامت ہے

لیکن بیدل کے اس شعر کے ساتھ مرزا نے عجب ہی قیامت ڈھائی ہے کہ ہو بہو ترجمہ لکھ ڈالا، یعنی

بوئے گل، نالۂ دل، دودِ چراغِ محفل
جو تری بزم سے نکلا، سو پریشاں نکلا
 

محمد وارث

لائبریرین
بہ زمیں چو سجدہ کردم، ز زمیں ندا برآمد
کہ مرا پلید کردی، ازیں سجدۂ ریائی


(فخر الدین عراقی)

جب میں نے سجدہ کیا تو زمیں سے صدا آئی کہ اس ریائی کے سجدے سے تُو نے مجھے ناپاک کر دیا ہے۔


اس شعر کا پرتو اقبال کے اس اردو شعر میں دیکھیئے لیکن اقبال نے دوسرا مصرع کہہ کر اس شعر میں ایک نئی جان ڈال دی ہے۔

جو میں سر بسجدہ ہوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا
ترا دل تو ہے صنم آشنا، تجھے کیا ملے گا نماز میں
 

محمد وارث

لائبریرین
بہ غیرِ دل ہمہ نقش و نگار بے معنی است
ھمیں ورق کہ سیہ گشتہ مدعا اینجاست


دل کے بغیر تمام نقش و نگار بے معنی ہیں، یہی ورق جو سیاہ ہو گیا ہے مدعا (بھی) تو یہیں ہے۔

ز کوئے عجز نظیری سرِ نیاز مکش
ز ہر رہے کہ درآیند انتہا اینجاست


نظیری، عجز کے کوچے سے اپنا سرِ نیاز مت اٹھا کہ جس راہ سے بھی آئیں انتہا تو یہیں ہے۔

(نظیری نیشاپوری)
 

محمد وارث

لائبریرین
تلاش از محمد زھری ترجمہ ن م راشد

تلاش از محمد زُھری

باد،
بادی سرد،
بادِ شب
ریشہ در گِل، شاخہ دُور از خاک
شاخہ از ریشہ جدا ماندہ، شگوفہ بار
ساقہ اما پوک
ریشہ در گِل، در تلاشِ شیرہ ھای خاک
شاخہ با گُل، پایہ ماہ میوہ ھای پاک
ساقہ اما پوک و خشک آوند
ما جدا از ھم، برای ھم، تلاشی بے ثمر داریم



ترجمہ از ن م راشد

ہوا،
ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا،
رات کی ہوا،
جس کی جڑیں خاک میں، اور شاخیں زمین سے دور
شاخیں جڑوں سے الگ تھلگ کلیاں برساتی ہوئی،
لیکن تنا اندر سے کھوکھلا
مٹی میں دبی ہوئی جڑیں خاک سے رس لینے کی کوشش میں
شاخیں پھولوں سے لدی ہوئی اور صاف ستھرے پھل
چاند سے دو ہاتھ آگے
لیکن تنا پھر بھی کھوکھلا اور جیسے سوکھا ہوا
ہم ایک دوسرے سے جدا ایک دوسرے کی تلاش میں ۔۔۔۔۔
ایسی تلاش جس کا کوئی ثمر نہ ہو


(جدید فارسی شاعری، ترجمہ ن م راشد، مجلسِ ترقیِ ادب، لاہور)
 

محمد وارث

لائبریرین
واہ حضور وارث صاحب - تو یہ کتاب آپ نے خرید ہی ڈالی - :)


جی ہاں قبلہ بالکل خرید ڈالی، ابھی پچھلے جمعہ کو میں 'بیمار' ہو کر گیا تھا اردو بازار لاہور اور کافی شفا بخش دوائیں اٹھا لایا، اتفاق سے یہ بھی مل گئی تو خرید لی۔

اور مجھے پورا یقین تھا کہ آپ اسکو ضرور نوٹ کریں آخر کو راشد کے عاشق جو ٹھہرے۔ :)
 

فرخ منظور

لائبریرین
جی ہاں قبلہ بالکل خرید ڈالی، ابھی پچھلے جمعہ کو میں 'بیمار' ہو کر گیا تھا اردو بازار لاہور اور کافی شفا بخش دوائیں اٹھا لایا، اتفاق سے یہ بھی مل گئی تو خرید لی۔

اور مجھے پورا یقین تھا کہ آپ اسکو ضرور نوٹ کریں آخر کو راشد کے عاشق جو ٹھہرے۔ :)

ویسے وارث صاحب یہ بہت زیادتی کی آپ نے کہ لاہور آئے اور مجھ سے نہیں‌ ملے:mad: اب اگر لاہور تشریف آوری ہو تو مجھ سے ضرور ملیے گا- ہم آپ کے مداح ہیں‌ حضور - ;)
ہم تو مجبور ہیں اس دل سے مگر اے جانِ جہاں
اپنے عشّاق سے ایسے بھی کوئی کرتا ہے؟ :)
 

محمد وارث

لائبریرین
ویسے وارث صاحب یہ بہت زیادتی کی آپ نے کہ لاہور آئے اور مجھ سے نہیں‌ ملے:mad: اب اگر لاہور تشریف آوری ہو تو مجھ سے ضرور ملیے گا- ہم آپ کے مداح ہیں‌ حضور - ;)
ہم تو مجبور ہیں اس دل سے مگر اے جانِ جہاں
اپنے عشّاق سے ایسے بھی کوئی کرتا ہے؟ :)


فرخ صاحب خدا گواہ ہے میں نے سوچا ضرور تھا :) لیکن کچھ وجوہات بھی تھیں جنکی وجہ سے آپ کو مطلع نہ کر سکا۔ اور آپ کی یہی محبت اور عنایت تو ہے قبلہ جو سر نیاز خم کیے کھڑے ہیں۔

ایک شعر حافظ شیرازی کا آپ کی نذر

حافظ مکن شکایت گر وصلِ یار خواہی
زیں بیشتر بیاید بر ہجر احتمالے

حافظ اگر وصلِ یار چاہتا ہے تو شکایت مت کر کہ ہجر کا اس سے بھی زیادہ احتمال ہے ;)
 
Top