محمد وارث

لائبریرین
رباعی

احوالِ جہان بر دلم آسان می کُن
و افعالِ بدم ز خلق پنہان می کن
امروز خوشم بدارد، فردا با من
آنچہ ز کرمِ توی سزد آن می کن


(عمر خیام)

(اے خدا)، زمانے کے حالات میرے دل پر (کیلیئے) آسان کر دے، اور میرے بُرے اعمال لوگوں (کی نظروں) سے پنہاں کر دے، میرا آج (حال) میرے لیئے بہت خوش کن ہے اور کل (مستقبل) میرے حق میں، جیسا تیرا (لطف و رحم و) کرم چاہے ویسا ہی کر دے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
بیا بہ مجلسِ اقبال و یک دو ساغر کش
اگرچہ سر نتراشد قلندری داند



(اقبال لاہوری)

اقبال کی مجلس (محفل) کی طرف آؤ اور ایک دو ساغر کھینچو، اگرچہ اس کا سر مُنڈھا ہوا نہیں ہے (لیکن پھر بھی) وہ قلندری رکھتا (قلندری کے اسرار و رموز جانتا) ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
غفلتِ حافظ دریں سراچہ عجب نیست
ہر کہ بہ میخانہ رفت، بے خبر آید


(حافظ شیرازی)

حافظ کی غفلت اس سرائے (دنیا) میں کچھ تعجب کی بات نہیں کہ جو کوئی بھی میخانہ میں گیا بے خبر ہی آیا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
قبولِ خاطرِ معشوق شرطِ دیدار است
بحکمِ شوق تماشا مکن کہ بے ادبی است

(عرفی شیرازی)

دوست جس حد تک پسند کرے اسی حد تک نظارہ کرنا چاہیئے، اپنے شوق کے موافق نہ دیکھ کہ یہ بے ادبی ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ہَماں بہتر کہ لیلٰی در بیاباں جلوہ گر باشَد
ندارَد تنگنائے شہر تابِ حسنِ صحرائی


(صائب تبریزی)

یہی بہتر ہے کہ لیلٰی کسی بیاباں میں جلوہ گر ہو، کہ تنگنائے شہر (شہر کے تنگ کوچے / تنگ دل لوگ) حسنِ صحرائی کی تاب (قدر) نہیں رکھتے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
بہ لبم رسیدہ جانم تو بیا کہ زندہ مانم
پس ازاں کہ من نمانم بہ چہ کار خواہی آمد


(امیر خسرو)

میری جان ہونٹوں پر آ گئی ہے، تُو آ کہ میں زندہ رہوں، جب میں نہیں ہونگا تو اسکے بعد تیرا آنا کس کام کا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
سعدی شیرازی کی ایک خوبصورت غزل کے چند خوبصورت اشعار

گر دلے داری بہ دلبندی بدہ
ضایع آں کشور کہ سلطانیش نیست


اگر دل رکھتا ہے تو اسے کسی دلدار کو دے دے، ضایع ہو جاتی ہے وہ سلطنت کہ جسکا کوئی سلطان نہ ہو۔



کامراں آں دل کہ محبوبیش ہست
نیک بخت آں سر کہ سامانیش نیست


کامیاب ہے وہ دل کہ جو اس (کسی) کا محبوب ہے، نیک بخت ہے وہ سر (دماغ) کہ جس میں ساز و سامان (کا سودا / ہوس) نہیں ہے۔


دردِ عشق از تندرستی خوشترست
گرچہ بیش از صبر درمانیش نیست


عشق کا درد تندرستی سے بہتر ہے اگرچہ صبر سے آگے (صبر کے سوا) اسکا کوئی درمان نہیں ہے۔
 

فاتح

لائبریرین
شعر می گویم بہ از آبِ حیات
من نہ دانم فاعلاتن فاعلات
(شاعر نا معلوم)

شعر گو لکھوں بطرز آب حیات
میں نہ جانوں فاعلاتن فاعلات

(منظوم ترجمہ کی 'گستاخی' ناچیز کی اپنی ہے۔)
 

محمد وارث

لائبریرین
شعر می گویم بہ از آبِ حیات
من نہ دانم فاعلاتن فاعلات
(شاعر نا معلوم)

شعر گو لکھوں بطرز آب حیات
میں نہ جانوں فاعلاتن فاعلات

(منظوم ترجمہ کی 'گستاخی' ناچیز کی اپنی ہے۔)


شکریہ فاتح صاحب اس خوبصورت شعر کیلیئے ویسے یہ شعر اسطرح بھی دیکھنے میں آتا ہے

شعر گویم بہتر از قند و نبات
من نہ دانم فاعلاتن فاعلات
 

فاتح

لائبریرین
شکریہ فاتح صاحب اس خوبصورت شعر کیلیئے ویسے یہ شعر اسطرح بھی دیکھنے میں آتا ہے

شعر گویم بہتر از قند و نبات
من نہ دانم فاعلاتن فاعلات

بہت شکریہ جناب وارث صاحب!

میں نے بھی کافی جگہوں پر اس مصرع کو اسی طرح یعنی 'شعر گویم بہتر از قند و نبات' پڑھا ہے لیکن کچھ جگہوں پر 'شعر می گویم بہ از آبِ حیات' بھی پڑھا ہے اور چونکہ شاعر کا نام معلوم نہیں اور کسی مستند کتاب یعنی شاعر کے دیوان میں نہیں پڑھا تو منظوم ترجمہ کے اعتبار سے اول الذکر کی بجائے آخر الذکر مصرع کو آسان جان کر ترجیح دی۔

ایک مرتبہ پھر شکریہ۔

والسلام،
 

محمد وارث

لائبریرین
بہت شکریہ جناب وارث صاحب!

میں نے بھی کافی جگہوں پر اس مصرع کو اسی طرح یعنی 'شعر گویم بہتر از قند و نبات' پڑھا ہے لیکن کچھ جگہوں پر 'شعر می گویم بہ از آبِ حیات' بھی پڑھا ہے اور چونکہ شاعر کا نام معلوم نہیں اور کسی مستند کتاب یعنی شاعر کے دیوان میں نہیں پڑھا تو منظوم ترجمہ کے اعتبار سے اول الذکر کی بجائے آخر الذکر مصرع کو آسان جان کر ترجیح دی۔

ایک مرتبہ پھر شکریہ۔

والسلام،


فاتح صاحب، آپ کی پوسٹ سے نہ صرف ایک عمدہ مصرع ہاتھ لگا بلکہ آپ کا خوبصورت منظوم ترجمہ بھی پڑھنے کو ملا، بہت شکریہ حضور۔
 

محمد وارث

لائبریرین
خاکِ ما خیزَد کہ سازَد آسمانے دیگرے
ذرّۂ نا چیز و تعمیرِ بیابانے نگر


(اقبال لاہوری)

میری خاک اٹھتی ہے کہ وہ ایک دوسرا آسمان بنائے، ہے تو وہ نا چیز ذرہ (لیکن) بیابان کی تعمیر (تو ذرا) دیکھ ۔
 

محمد وارث

لائبریرین
رباعی

سرمد تو حدیثِ کعبہ و دیر مَکُن
در کوچۂ شک چو گمرہاں سیر مَکُن
رو راہ روی ز شیطان آموز
یک قبلہ گزیں و سجدۂ غیر مَکُن



(سرمد شہید)

سرمد تو کعبے اور بُتخانے کی باتیں مت کر، شک و شبہات کے کوچے میں گمراہوں کی طرح سیر مت کر، راہ پر چلنا شیطان سے سیکھ، ایک قبلہ پسند کر لے (پکڑ لے) اور غیر کو سجدہ مت کر۔
 

محمد وارث

لائبریرین
واللہ کہ شہر بے تو مرا حبس می شوَد
آوارگی و کوہ و بیابانم آرزوست


(مولوی رومی)


واللہ کہ تیرے بغیر شہر میرے لئے حبس (زنداں) بن گیا ہے، (اب) مجھے آوارگی اور دشت و بیابانوں کی آرزو ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
بحرفِ ناملائم زحمتِ دل ہا مشو بیدل
کہ ہر جا جنسِ سنگی ہست، باشد دشمنِ مینا

(عبدالقادر بیدل)

بیدل، تلخ الفاظ (ناروا گفتگو) سے دلوں کو تکلیف مت دے، کہ جہاں کہیں بھی کوئی پتھر ہوتا ہے وہ شیشے کا دشمن ہی ہوتا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
رباعی

خواہی کہ ترا دولتِ ابرار رسَد
مپسند کہ از تو بہ کس آزار رسَد
از مرگ مَیَندیش و غمِ رزق مَخور
کایں ھر دو بہ وقتِ خویش ناچار رسَد


(شیخ ابو سعید ابو الخیر)

اگر تُو چاہتا ہے کہ تجھے نیک لوگوں کی دولت مل جائے (تو پھر) نہ پسند کر کہ تجھ سے کسی کو آزار پہنچے، موت کی فکر نہ کر اور رزق کا غم مت کھا، کیوں کہ یہ دونوں اپنے اپنے وقت پر چار و ناچار (لازماً) پہنچ کر رہیں گے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
کششے کہ عشق دارد نہ گزاردت بدینساں
بجنازہ گر نیائی بہ مزار خواہی آمد


(امیر خسرو دہلوی)

عشق میں جو کشش ہے وہ تجھے اسطرح زندگی بسر کرنے نہیں دے گی، تو اگر میرے جنازے پر نہیں آیا تو مزار پر ضرور آئے گا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
دل اسبابِ طرَب گم کردہ، در بندِ غمِ ناں شُد
زراعت گاہِ دہقاں می شَوَد چوں باغ ویراں شُد


(غالب دہلوی)

(میرے) دل نے خوشی و مسرت کے سامان گم کر دیئے (کھو دیئے) اور روٹی کے غم میں مبتلا ہو گیا، (جسطرح کہ) کسان کی زراعت گاہ (کھیت) بن جاتا ہے جب باغ ویران ہو جاتا پے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
رباعی

اسرارِ ازل را نہ تو دانی و نہ من
ویں حرفِ معمّا نہ تو خوانی و نہ من
ھست از پسِ پردہ گفتگوئے من و تو
چوں پردہ بر افتد نہ تو مانی و نہ من


(عمر خیام)

اسرارِ ازل نہ تو جانتا ہے اور نہ میں، یہ حروفِ معما نہ تو نے پڑھے ہیں اور نہ میں نے، میری اور تیری گفتگو تو بس پردے کے پیچھے سے ہے، جب پردہ گرے گا (اٹھے گا) تو نہ تو رہے گا اور نہ میں۔

یہ عمر خیام نیشاپوری کی مشہور رباعی ہے لیکن اس رباعی کا دوسرا مصرع مختلف طریقوں سے ملتا ہے جیسے:

ویں خطِّ مُقرمط نہ تو ذانی و نہ من (اس قرارگاہ کے کچھے ہوئے خط/لکیروں کو نہ تو جانتا ہے اور نہ میں) اور اسطرح سے بھی
ویں خطِّ مقرمط نہ تو خوانی و نہ من

لیکن میں نے اوپر رباعی میں وہی مصرع لکھا ہے جو زیادہ مشہور ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
حافظ شیرازی کی ایک غزل کے تین اشعار


نیکیِ پیرِ مُغاں بیں کہ چو ما بَدمستاں
ہر چہ کردیم، بچشمِ کَرَمش زیبا بُود


پیرِ مغاں کی نیکی تو دیکھ کہ ہم جیسے بد مستوں نے، جو کچھ بھی کیا وہ اسکی نگاہِ کرم میں اچھا (مناسب) تھا۔


مُطرب از دردِ مَحبّت غزلے می پرداخت
کہ حکیمانِ جہاں را مژہ خوں پالا بود


مطرب محبت کے درد سے ایسی غزل گا رہا تھا کہ دنیا کے حکیموں (عقل مندوں) کی پلکیں خون سے آلودہ تھیں۔


قلبِ اندودۂ حافظ برِ او خرج نَشُد
کہ معامل بہمہ عیبِ نہاں بینا بود

حافظ کے دل کا کھوٹا سکہ اُسکے سامنے نہ چلا (چل سکا)، اس لئے کہ معاملہ کرنیوالا تمام پوشیدہ عیبوں کا دیکھنے والا تھا۔
 
Top