تشنه لب بر ساحلِ دریا ز غیرت جان دهم
گر به موج افتد گمانِ چینِ پیشانی مرا
(غالب دهلوی)
مولانا حالی نے اس شعر کی کتنی سادہ شرح کر دی۔۔ لکھتے ہیں:
"میں کیسا ہی پیاسا ہوں لیکن اگر دریا کی موج پر مجھ کو یہ شبہہ گذرے کہ دریا نے مجھے دیکھ کر اپنی پیشانی پر بل ڈالا ہے تو میں غیرت سے ساحلِ دریا پر جان دے دوں گا مگر حلق تر نہ کروں گا۔"
یہ شعر جذباتی محاکات کی ایک عمدہ مثال ہے اور غالب کے دل و دماغ کا آئینہ دار ہے۔
(ترجمہ و تشریح: صوفی غلام مصطفیٰ تبسم)
ضمیر نیازی کو غالب کا یہ شعربہت پسند تھا، شاید اس لئے بھی کہ یہ نیازی صاحب کی خودداری کا غماز تھا۔ اُن کے مضامین کے مجموعے "انگلیاں فگار اپنی" میں کتاب کے بیک کور پراپنی قلمی تصویر کے نیچے یہی شعر درج کروایا، اور "اظہارِ تشکر" کے صفحات میں مولانا حالی کے کیے ہوے اس شعر کے ترجمے کے بعد یہ لکھا:
اب ایک واقعہ مرزا یگانہ کے بارے ذوالفقار علی بخاری کی زبانی سن لیجیے۔ فرماتے ہیں: "یہ غالب دشمنی ان کا ایک ڈھونگ تھا، محض لوگوں کو چڑانے کے لیے... مرزا صاحب غزلیں سناتے اور ہم جھومتے... ایک نئی غزل سنائی جس کا مطلع تھا:
بندہ وہ بندہ جو دم نہ مارے
پیاسا کھڑا ہو دریا کنارے
میں نے اس شعر کی بہت داد دی اور ساتھ ہی فارسی کا ایک شعر پڑھا:
تشنه لب بر ساحلِ دریا ز غیرت جان دهم
گر به موج افتد گمانِ چینِ پیشانی مرا
یہ شعر سن کر مرزا صاحب کی حالت غیر ہو گئی، آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ رندھی ہوئی آواز میں پوچھا، کس کا شعر ہے۔ میں نے عرض کیا، غالب کا۔ فرمایا، جھوٹ۔"