محمد وارث

لائبریرین
باید چو برق خندہ زناں از جہاں گذشت
نتواں چو ابر بر سرِ دنیا گریستن


مُلّا طغرای مشہدی

بجلی طرح جہاں سے ہنستے مسکراتے گزر جانا چاہیے نہ کہ بادل کی طرح دنیا کے سر پر رونا چاہیے۔
 

ابو مصعب

محفلین
گلے خوشبوئے روزے در حمام
رسید ازدست محبوبے بدستم

ترجمہ: ایک روز حمام میں محبوب کے ہاتھ سے مجھ تک خوشبودار مٹی پہنچی

بدو گفتم کہ مشکے یا عبیری
کہ ازبوئے دل آویز تو مستم

ترجمہ: میں نے اس مٹی سے پوچھا کہ تو مشک ہے یا عبیر، کہ تیری خوشبو نے میرا دل جگڑ لیا

بگفتا من گلے ناچیز بود، ولیکن مدتے با گل نشستم
جمال ہمنشیں در من اثر کرد، وگرنہ من ہماں خاکم کہ ہستم

ترجمہ: اس مٹی نے کہا کہ میں تو وہی ناچیز مٹی ہوں، لیکن کچھ دل پھولوں کی ہم نشینی کی ہے
ہمنشین کے جمال نے مجھ پر بھی اثر کر دیا، ورنہ میں تو وہی مٹی ہوں جو پہلے تھی۔

شیخ سعدی (گلستان)
 

حسان خان

لائبریرین
ز نورِ عشق دارد روشنی روز
سیه از دُودِ عشق است این شبِ داج
(فیض کاشانی)

روز میں روشنی عشق کے نور سے ہے؛ (جبکہ) یہ شبِ تاریک عشق کے دُود سے سیاہ ہے۔
× دُود = دھواں
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
سکون از عشق دارد کوه و صحرا
خروش از عشق دارد بحرِ موّاج
(فیض کاشانی)

کوہ و صحرا میں سکون، اور بحرِ موّاج میں خروش عشق ہی کے باعث ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
خدا از عشق کرد آغازِ عالَم
نبی از عشق جُست انجامِ معراج
(فیض کاشانی)

خدا نے عشق سے دنیا کا آغاز کیا؛ (اور) نبی نے عشق سے معراج کا انجام پایا۔
 
خدا شناس نه ای تو ای زاهدِ خود بین
بیا به میکده می نوش و با خدا می باش
(حکیم محمد نعمان ساجد)

اے خودغرض زاہد!تو خدا شناس نہیں ہے،مےکدے میں آ!شراب نوش کر اور خدا کے ساتھ رہ۔
 
دلِ شکستهِ من را نسازد آن دلبر
مرا چه سود گر او آیینه گری داند
(حکیم محمد نعمان ساجد)

وہ دلبر میرے دلِ شکستہ کو نہیں بناتا(یعنے نہیں جوڑتا)،مجھے کیا فائدہ اگر وہ آئینہ گری جانتا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
گهی کم گه زیاد از عشق شد مه
ز عشق افروخت رخ خورشیدِ وهّاج
(فیض کاشانی)

قمر عشق کے باعث گاہ کم گاہ زیادہ ہوا؛ خورشیدِ درخشاں نے عشق کے باعث رُخ روشن کیا۔
 

حسان خان

لائبریرین
دلِ شکستهِ من را نسازد آن دلبر
مرا چه سود گر او آیینه گری داند
(حکیم محمد نعمان ساجد)

وہ دلبر میرے دلِ شکستہ کو نہیں بناتا(یعنے نہیں جوڑتا)،مجھے کیا فائدہ اگر وہ آئینہ گری نہیں جانتا۔
تصحیح: ۔۔۔مجھے کیا فائدہ اگر وہ آئینہ گری جانتا ہے۔
 
بر سوالِ وصل میگوید مرا آن جانِ من
"بر سرِ عشاق خنده می زند شمشیرِ من"
(حکیم محمد نعمان ساجد)

سوالِ وصل پر وہ جانِ من مجھے کہتا ہے:"سرِ عاشقاں پر میری شمشیر خندہ زن ہوتی ہے۔"
 

محمد وارث

لائبریرین
فسردہ دل ہمہ شب داغہائے من شمرد
چو مفلسے کہ زرِ دیگراں حساب کند


قاسم دیوانہ مشہدی

(میرا) افسردہ دل ساری رات میرے داغ گنتا رہا، اُس مفلس کی طرح کہ جو دوسروں کی دولت کا حساب کرتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
مُلکِ قناعت مراست پيشِ چنين تخت و تاج
مُلکِ سمرقند چيست و افسرِ خاقانِ او
(خاقانی شروانی)

میری ملکیت میں مُلکِ قناعت ہے؛ ایسے (عظیم) تخت و تاج کے سامنے مُلکِ سمرقند اور اُس کے پادشاہ کا تاج کیا ہیں؟
 

حسان خان

لائبریرین
ای در هوای وصلِ تو گُسترده جان‌ها بال‌ها
تو در دلِ ما بوده‌ای، در جستجو ما سال‌ها
(فیض کاشانی)

اے کہ تمہارے وصل کی آرزو میں (ہماری) جانوں نے (اپنے) بال و پر پھیلائے ہوئے ہیں، تم ہمارے دل ہی میں تھے، اور ہم سالوں جستجو میں رہے۔
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
خدا شناس نه ای تو ای زاهدِ خود بین
بیا به میکده می نوش و با خدا می باش
(حکیم محمد نعمان ساجد)

اے خودغرض زاہد!تو خدا شناس نہیں ہے،مےکدے میں آ!شراب نوش کر اور خدا کے ساتھ رہ۔
میکدے میں آکر مے پی لےاور اللہ والا (باخدا) بن جا۔ اریب آغا
 

لاریب مرزا

محفلین
ای نگاهِ شفقت‌آمیزت مرا از جان لذیذ
هر چه باشد در جهان خوش‌تر، مرا از آن لذیذ
(نقیب خان طغرل احراری)

اے تمہاری نگاہِ شفقت آمیز مجھے جان سے (زیادہ) لذیذ ہے؛ (اور) دنیا میں جو کچھ بھی خوب تر ہو، مجھے اُس سے (زیادہ) لذیذ ہے۔
می‌کَشد قُلّابِ جذبِ عشق سُویت دم به دم
بسملِ شوقِ تو‌اَم، بال و پری درکار نیست
(نقیب خان طغرل احراری)

عشق کی کشش کا قُلّاب (مجھے) ہر دم تمہاری جانب کھینچتا ہے؛ میں تمہارے اشتیاق کا بسمل ہوں، (مجھے) کوئی بال و پر درکار نہیں ہیں۔
× قُلّاب = شکاری کانٹا، ہُک
بسکه از سر تا به پای او لطافت می‌چکد
وصفِ او سازی، دهانت گردد از گفتار تر
(نقیب خان طغرل احراری)

اُس کے سر سے پا تک اِتنی زیادہ لطافت ٹپکتی ہے کہ (اگر) تم اُس کا وصف بیان کرو تو تمہارا دہن گفتار سے تر ہو جائے۔
گر بوَد عالم پر از افسانهٔ عشقم، ولی
شمّه‌ای واقف نشد یک آدم از رازم هنوز
(نقیب خان طغرل احراری)

اگرچہ عالَم میرے افسانۂ عشق سے پُر ہے، لیکن ہنوز کوئی انسان میرے راز سے ذرا بھی واقف نہ ہوا۔
آه، از آن روزی، که گردیدم من از وصلِ تو دور
هوشم از سر رفت و طاقت از دل و از دیده نور
(نقیب خان طغرل احراری)

آہ! جس روز سے میں تمہارے وصل سے دور ہوا، میرے سر سے ہوش، دل سے طاقت، اور دیدے سے نور چلا گیا۔
بہت خوبصورت کلام ہے۔ اشتراک کا شکریہ!!
 

لاریب مرزا

محفلین
(رباعی)
زاهد که مُدام توبه فرمود مرا
می‌خواند گناه‌کار و مردود مرا
فردا که عطای دوست بیند گوید
ای کاش بجز گنه ‌نمی‌بود مرا
(جعفر کاشی)

زاہد کہ جو ہمیشہ مجھے توبہ کی نصیحت کرتا تھا اور مجھے گناہ کار و مردود پکارتا تھا، وہ کل جب دوست کی عطا دیکھے گا تو کہے گا کہ اے کاش میرے پاس گناہوں کے سوا کچھ نہ ہوتا۔
واہ!!
 

لاریب مرزا

محفلین
(رباعی)
در دستِ مَنَت همیشه دامن بادا!
وآنجا که ترا پای، سرِ من بادا!
برگم نَبُوَد که کس ترا دارد دوست
ای دوست! همه جهانْت دشمن بادا!
(سنایی غزنوی)

میرے دست میں ہمیشہ تمہارا دامن ہو! اور جس جگہ کہ تمہارا پا ہو، وہاں میرا سر ہو! میں تاب نہیں رکھتا کہ کوئی تمہیں محبوب رکھے؛ اے دوست! تمام جہان تمہارا دشمن ہو!
واہ کیا کہنے!!
 

لاریب مرزا

محفلین
گلے خوشبوئے روزے در حمام
رسید ازدست محبوبے بدستم

ترجمہ: ایک روز حمام میں محبوب کے ہاتھ سے مجھ تک خوشبودار مٹی پہنچی

بدو گفتم کہ مشکے یا عبیری
کہ ازبوئے دل آویز تو مستم

ترجمہ: میں نے اس مٹی سے پوچھا کہ تو مشک ہے یا عبیر، کہ تیری خوشبو نے میرا دل جگڑ لیا

بگفتا من گلے ناچیز بود، ولیکن مدتے با گل نشستم
جمال ہمنشیں در من اثر کرد، وگرنہ من ہماں خاکم کہ ہستم

ترجمہ: اس مٹی نے کہا کہ میں تو وہی ناچیز مٹی ہوں، لیکن کچھ دل پھولوں کی ہم نشینی کی ہے
ہمنشین کے جمال نے مجھ پر بھی اثر کر دیا، ورنہ میں تو وہی مٹی ہوں جو پہلے تھی۔

شیخ سعدی (گلستان)
جمال ہمنشین در من اثر کرد ، وگرنہ من ہماں خاکم کہ ہستم
کیا ہی خوب کلام ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
اگر تفرُّجِ بحرت هوس بُوَد یارا
بیا مشاهده کن دیدهٔ چو دریا را
(عماد فقیه کرمانی)

اے یار! اگر تمہیں بحر کی سیر و گشت و تفریح کی آرزو ہے تو آؤ (میری) بحر جیسی چشم کو مشاہدہ کرو۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
گرت هواست که بینی بهشت و طوبا را
بیا مشاهده کن آن جمال و بالا را
(بیدل شیرازی)

اگر تمہیں بہشت و طوبیٰ کو دیکھنے کی آرزو ہے تو آؤ اُس جمال اور قد و قامت کو مشاہدہ کرو۔
× طوبیٰ = بہشت میں موجود ایک درخت کا نام
 
Top