تصحیح: ۔۔۔مجھے کیا فائدہ اگر وہ آئینہ گری جانتا ہے۔دلِ شکستهِ من را نسازد آن دلبر
مرا چه سود گر او آیینه گری داند
(حکیم محمد نعمان ساجد)
وہ دلبر میرے دلِ شکستہ کو نہیں بناتا(یعنے نہیں جوڑتا)،مجھے کیا فائدہ اگر وہ آئینہ گری نہیں جانتا۔
میکدے میں آکر مے پی لےاور اللہ والا (باخدا) بن جا۔ اریب آغاخدا شناس نه ای تو ای زاهدِ خود بین
بیا به میکده می نوش و با خدا می باش
(حکیم محمد نعمان ساجد)
اے خودغرض زاہد!تو خدا شناس نہیں ہے،مےکدے میں آ!شراب نوش کر اور خدا کے ساتھ رہ۔
ای نگاهِ شفقتآمیزت مرا از جان لذیذ
هر چه باشد در جهان خوشتر، مرا از آن لذیذ
(نقیب خان طغرل احراری)
اے تمہاری نگاہِ شفقت آمیز مجھے جان سے (زیادہ) لذیذ ہے؛ (اور) دنیا میں جو کچھ بھی خوب تر ہو، مجھے اُس سے (زیادہ) لذیذ ہے۔
میکَشد قُلّابِ جذبِ عشق سُویت دم به دم
بسملِ شوقِ تواَم، بال و پری درکار نیست
(نقیب خان طغرل احراری)
عشق کی کشش کا قُلّاب (مجھے) ہر دم تمہاری جانب کھینچتا ہے؛ میں تمہارے اشتیاق کا بسمل ہوں، (مجھے) کوئی بال و پر درکار نہیں ہیں۔
× قُلّاب = شکاری کانٹا، ہُک
بسکه از سر تا به پای او لطافت میچکد
وصفِ او سازی، دهانت گردد از گفتار تر
(نقیب خان طغرل احراری)
اُس کے سر سے پا تک اِتنی زیادہ لطافت ٹپکتی ہے کہ (اگر) تم اُس کا وصف بیان کرو تو تمہارا دہن گفتار سے تر ہو جائے۔
گر بوَد عالم پر از افسانهٔ عشقم، ولی
شمّهای واقف نشد یک آدم از رازم هنوز
(نقیب خان طغرل احراری)
اگرچہ عالَم میرے افسانۂ عشق سے پُر ہے، لیکن ہنوز کوئی انسان میرے راز سے ذرا بھی واقف نہ ہوا۔
بہت خوبصورت کلام ہے۔ اشتراک کا شکریہ!!آه، از آن روزی، که گردیدم من از وصلِ تو دور
هوشم از سر رفت و طاقت از دل و از دیده نور
(نقیب خان طغرل احراری)
آہ! جس روز سے میں تمہارے وصل سے دور ہوا، میرے سر سے ہوش، دل سے طاقت، اور دیدے سے نور چلا گیا۔
واہ!!(رباعی)
زاهد که مُدام توبه فرمود مرا
میخواند گناهکار و مردود مرا
فردا که عطای دوست بیند گوید
ای کاش بجز گنه نمیبود مرا
(جعفر کاشی)
زاہد کہ جو ہمیشہ مجھے توبہ کی نصیحت کرتا تھا اور مجھے گناہ کار و مردود پکارتا تھا، وہ کل جب دوست کی عطا دیکھے گا تو کہے گا کہ اے کاش میرے پاس گناہوں کے سوا کچھ نہ ہوتا۔
واہ کیا کہنے!!(رباعی)
در دستِ مَنَت همیشه دامن بادا!
وآنجا که ترا پای، سرِ من بادا!
برگم نَبُوَد که کس ترا دارد دوست
ای دوست! همه جهانْت دشمن بادا!
(سنایی غزنوی)
میرے دست میں ہمیشہ تمہارا دامن ہو! اور جس جگہ کہ تمہارا پا ہو، وہاں میرا سر ہو! میں تاب نہیں رکھتا کہ کوئی تمہیں محبوب رکھے؛ اے دوست! تمام جہان تمہارا دشمن ہو!
جمال ہمنشین در من اثر کرد ، وگرنہ من ہماں خاکم کہ ہستمگلے خوشبوئے روزے در حمام
رسید ازدست محبوبے بدستم
ترجمہ: ایک روز حمام میں محبوب کے ہاتھ سے مجھ تک خوشبودار مٹی پہنچی
بدو گفتم کہ مشکے یا عبیری
کہ ازبوئے دل آویز تو مستم
ترجمہ: میں نے اس مٹی سے پوچھا کہ تو مشک ہے یا عبیر، کہ تیری خوشبو نے میرا دل جگڑ لیا
بگفتا من گلے ناچیز بود، ولیکن مدتے با گل نشستم
جمال ہمنشیں در من اثر کرد، وگرنہ من ہماں خاکم کہ ہستم
ترجمہ: اس مٹی نے کہا کہ میں تو وہی ناچیز مٹی ہوں، لیکن کچھ دل پھولوں کی ہم نشینی کی ہے
ہمنشین کے جمال نے مجھ پر بھی اثر کر دیا، ورنہ میں تو وہی مٹی ہوں جو پہلے تھی۔
شیخ سعدی (گلستان)