یہاں بریم کا کیا مطلب ہے؟ کیا یہ جدا ایک لفظ ہے یا مصدر "بردن" کے مضارع کا صیغہء جمع متکلم ہے؟شد از وعیدِ تو پر گوش ما چہ می گوئی
اگر بہ حشر بریم از تو ماجرا واعظ
اے واعظ! تیری وعید سے ہمارے کان بھر گئے، اگر روزِ حشر تجھ سے ماجرا پوچھا گیا تو تو کیا جواب دے گا؟
'اگر به حشر بَریم' یعنی اگر ہم حشر میں یا بروزِ حشر لے جائیں۔۔۔یہاں بریم کا کیا مطلب ہے؟ کیا یہ جدا ایک لفظ ہے یا مصدر "بردن" کے مضارع کا صیغہء جمع متکلم ہے؟
لغت نامۂ دہخدا کے مطابق 'ماجرا' کا ایک معنی 'نِزاع و جِدال و دعویٰ بھی ہے۔ لہٰذا میرا خیال ہے کہ اِس بیت کے یہ دو مفہوم ہو سکتے ہیں:کیا اس کا یہ مطلب ہو سکتا ہے کہ اگر ہمارا ماجرا بہ روزِ حشر تجھ سے لیں(دریافت کریں)؟