جامۂ مستیِ عشق اپنا مگر کم گھیر تھا دامنِ تر کا مرے دریا ہی کا سا پھیر تھا بلبلوں نے کیا گُل افشاں میر کا مرقد کِیا دور سے آیا نظر پھولوں کا اک ڈھیر تھا