دریا

شمشاد

لائبریرین
جذبات کا دریا ہے اک ایک غزل ان کی
اندازِ بیاں میگوں، اشعار ہیں انگوری
(سرور)

(یہ شعر سرور عالم راز سرور نے اقبال صفی پوری کے لیے لکھا تھا)
 

عیشل

محفلین
لب خاموش،چشم خشک کیا سمجھائیں گے تجھ کو
جو بارش دل میں ہوتی ہے،جو دریا دل میں بہتا ہے
مجھے تجھ سے جدا رکھتا ہے اور دکھ تک نہیں ہوتا
مرے اندر ترے جیسا یہ آخر کون رہتا ہے
 

محمد وارث

لائبریرین
جز مرتبۂ کُل کو حاصل کرے ہے آخر
اک قطرہ نہ دیکھا جو دریا نہ ہوا ہوگا


صد نشترِ مژگاں کے لگنے سے نہ نکلا خوں
آگے تجھے میر ایسا سودا نہ ہوا ہوگا
 

شمشاد

لائبریرین
ہستی کے فسانے خواب ہوئے، دریائے جنوں پایاب ہوئے
آنسو اکثر، ہنسنا کم کم، کچھ کہہ نہ سکے، کچھ بھول گئے
(سرور)
 

نوید صادق

محفلین
دل اپنی طلب میں صادق تھا، گھبرا کے سائے مطلوب گیا
دریا سے یہ موتی نکلا تھا، دریا ہی میں جا کر ڈوب گیا

شاعر: شاد عظیم آبادی
 

عیشل

محفلین
ہم سے بدلا نہ گیا رنگِ وفا
لوگ کیا کیا نہیں کرتے
خوف کیسا بھی ہو طوفانوں کا
اپنا رخ دریا نہیں بدلا کرتے​
 

ہما

محفلین
ڈوبتی اور جاگتے سانسوں کا اک دریا ہوں میں
اپنے گُم گشتہ کناروں کے لیئے بہتا ہوں میں


مُجھے کچھ کمی لگ رہی ہے شعر میں کوئی پلیز ایسے صحیح کر دے۔۔؟
 

شمشاد

لائبریرین
قطرہ دریا میں جو مل جائے تو دریا ہو جائے
کام اچّھا ہے وہ، جس کا کہ مآل اچّھا ہے
(چچا)
 
Top