بارشوں کے موسم میں بارشیں تو ہوتی ہیں
دل کے بھیگ جانے کی خواہشیں تو ہوتی ہیں
وصل کے اجالوں کی اوڑھنی میں چھپ کر بھی
ہجر کے اندھیروں کی وحشتیں تو ہوتی ہیں
دل بھی بجھا ہو شام کی پرچھائیاں بھی ہوں
مر جائیے جو ایسے میں تنہائیاں بھی ہوں
ہر حسنِ سادہ لوح نہ دل میں اُتر سکا
کچھ تو مزاجِ یار میں گہرائیاں بھی ہوں۔