آپ کے دیئے گئے شعر کا دوسرا مصرعہ کچھ گڑبڑ لگ رہا ہے۔اس گھر میں تو صدیوں سے خاموشی ہے
تم ہی اب دیواروں کوئی بات کرو
عبدالغفور کشفی
خاموشی
آپ کے دیئے گئے شعر کا دوسرا مصرعہ کچھ گڑبڑ لگ رہا ہے۔
ہر طرف تھی خاموشی اور ایسی خاموشی
رات اپنے سائے سے ہم بھی ڈر کے روئے تھے
بھارت بھوشن پنت
سایہ
اس غزل میں شعر نمبر ایک میں "ہارو" ہے، چوتھے میں "مارو"، بانچویں میں "یارو" اور ساتویں میں "پہریدارو" ہے۔اے میرے غمخوارو کوئی بات کرو
یوں نہ ہمت ہارو کوئی بات کرو
اس گھر میں تو صدیوں سے خاموشی ہے
تم ہی اب دیواروں کوئی بات کرو
بس اک چاند کے کھو جانے پر کیوں چپ ہو
آخر شب کے تاروں کوئی بات کرو
عشق اگر الزام تو الزام سہی
پتھر تو نہ مارو کوئی بات کرو
مجھ کو میری کم گوئی نے مارا ہے
تم کیوں چپ ہو یارو کوئی بات کرو
کس کس کے کچے گھر کو مسمار کیا
محلوں کے معماروں کوئی بات کرو
کشفی گھر کیوں سونا لگتا ہے
گھر کے پہریدارو کوئی بات کرو
صدیاں جن میں زندہ ہوں وہ سچ بھی مرنے لگتے ہیںمیں اپنے سائے میں بیٹھا تھا کتنی صدیوں سے
تمہاری دھوپ نے دیوار توڑ دی میری
نعمان شوق
صدی