اتنا بے صرفہ نہ جائے مرے گھر کا جلنااے خدا جو بھی مجھے پندِ شکیبائی دے
اس کی آنکھوں کو مرے زخم کی گہرائی دے
اتنا بے صرفہ نہ جائے مرے گھر کا جلنا
چشمِ گریاں نہ سہی چشمِ تماشائی دے
فراز
تماشائی
طور پر طالبِ دیدار ہزاروں آتےاے خدا جو بھی مجھے پندِ شکیبائی دے
اس کی آنکھوں کو مرے زخم کی گہرائی دے
اتنا بے صرفہ نہ جائے مرے گھر کا جلنا
چشمِ گریاں نہ سہی چشمِ تماشائی دے
فراز
تماشائی
ٹھہرتی ہی نہیں آنکھیں جاناں
تیری تصویر کی زیبائی پر
سطح کے دیکھ کے اندازے لگیں
آنکھ جاتی نہیں گہرائی پر
پروین شاکر
گہرائی
مدت سے رہی فرش تری راہ گزر میں
تب جا کے ستاروں سے کہیں آنکھ لڑی ہے
جاوید وششٹ
آنکھ
پھول کی خوشبو ہوا کی چاپ شیشہ کی کھنکوہ عطر دان سا لہجہ مرے بزرگوں کا
رچی بسی ہوئی اردو زبان کی خوشبو
بشیر بدر
خوشبو
ماشاء اللہ،
انتہائی خوبصورت خیال ہے بس ذرا پالش کا متقاضی ہے اس پر ضرور کام کیجیے گا
نہ بزم اپنی نہ اپنا ساقی نہ شیشہ اپنا نہ جام اپناپھول کی خوشبو ہوا کی چاپ شیشہ کی کھنک
کون سی شے ہے جو تیری خوش بیانی میں نہیں
نامعلوم
شیشہ
اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میںکعبے میں مسلمان کو کہہ دیتے ہیں کافر
بت خانے میں کافر کو بھی کافر نہیں کہتے
بسمل سعیدی
بت