راہبر دیکھ لئے ، راہ گزر دیکھ آئےشکستہ دل اندھیری شب اکیلا راہبر کیوں ہو
نہ ہو جب ہم سفر کوئی تو اپنا بھی سفر کیوں ہو
راہبر
گر کچھ بھی خبر ہوتی انجام گلستاں کیراہبر دیکھ لئے ، راہ گزر دیکھ آئے
بیچ رستے سے ہم انجامِ سفر دیکھ آئے
ظہیراحمدظہیر
السلام علیکم
بھیا کہاں ہیں آپ !!!
اللہ کرے خیریت سے ہوں آمین
انجام
زخم دل ہو گئے پھر انکی عنایت سے ہرےبرق نے میرا نشیمن نہ جلایا ہو کہیں
صحن گلشن میں اجالا ہے خدا خیر کرے
خلش اکبرآبادی
گلشن
اس میں تبدیلی مری آنکھوں کو منظور نہیںبہار آکے رہے گی ہمارے گلشن میں
اگرچہ اس میں خزائیں بہت طویل ہوئی
جو اپنے مقصد اصلی کو بھول جاتی ہیں
یہ سچ ہے سب وہی قومیں بہت ذلیل ہوئی
تبدیلی
ہوش نہ تھا بے ہوشی تھی بے ہوشی میں پھر ہوش کہاںتصویر بناتا ہوں میں خوابوں میں ہمیشہ
باہوش جو ہوتاہوں تو کچھ لکھ نہیں پاتا
ہوش
وہ ایک لمحہ جسے تم نے مختصر جاناافسانہ کچھ طویل رہا اور گفتگو
نظریں جھکا کے ، ہوں ، کی طرح مختصر رہی
مختصر
(میں صرف ایسے اشعار پر شاعر کا نام لکھتا ہوں جو میرے نہیں ہوتے)
داستان غم ہو یا قصہ توپ و تفنگوہ ایک لمحہ جسے تم نے مختصر جانا
ہم ایسے لمحے میں اک داستاں بناتے ہیں
تالیف حیدر
داستان
رنگداستان غم ہو یا قصہ توپ و تفنگ
سبھی مزاج بدلنے کے رنگ ہیں پیارے
رنگ
جاتے جاتے عرصہ گاہ حشر تک جو حال ہوظلم و کذب و معصیت کرلوپراتنا جان لو
دو ہی گز کے فاصلے پر عالم انصاف ہے !
قبر