کہانی لکھتے ہوئے داستاں سناتے ہوئےخواب کا کیا ہے رات کے نقش و نگار بناؤ
رات کے نقش و نگار بناؤ خواب کا کیا ہے
دانیال طریر
خواب
دنیا ہے خواب حاصل دنیا خیال ہےکہانیاں ہی سہی سب مبالغے ہی سہی
اگر وہ خواب ہے تعبیر کر کے دیکھتے ہیں
احمد فراز
خواب
جو کام کرنے ہیں اس میں نہ چاہئے تاخیربسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
غالب
کام
میں کون ہوں، میں کیا ہوں، میں کس لیے یہاں ہوں؟قاصد نہیں یہ کام ترا اپنی راہ لے
اس کا پیام دل کے سوا کون لا سکے
درد
اگلا لفظ
کون
زیرِ لب یہ جو تبسّم کا دِیا رکھا ہےیوں تو اشکوں سے بھی ہوتا ہے الم کا اظہار
ہائے وہ غم جو تبسم سے عیاں ہوتا ہے
مقبول نقش
تبسم
موج خوں سر سے گزر ہی کیوں نہ جائےتم کوئی بات کیوں نہیں کرتے
پھر کوئی بات ہو گئی ہے کیا؟
جون
کیا
جو غیر کے جذبات کی تعظیم کرے گادیر نہیں حرم نہیں در نہیں آستاں نہیں
بیٹھے ہیں رہ گزر پہ ہم غیر ہمیں اٹھائے کیوں
غالب
غیر
میں نے چاچو جان کہایہاں تھانیداری کرنے کی نہیں ہو رہی۔ پھر بھی :
یوں ٹیڑھی ترچھی آڑی
جیسے سڑک ہو ان کی
اپنی ہی کھیتی باڑی
دو دوست پیچھے بیٹھے
دو چڑھ گئے اگاڑی
یہ پھٹ پھٹی ہے کوئی
یا بھاگتی پہاڑی
پھٹ پھٹ پھٹاک کر کے
جب یہ سڑک پہ دھاڑی
دائیں کو پہلے گھومی
پھر بائیں سمت تاڑی
اک بس سے بچ کے نکلی
اک سائیکل پچھاڑی
اک ٹیکسی کو رگڑا
نمبر پلیٹ اکھاڑی
فٹ پاتھ پر جو اچھلی
ٹکرایا اک کباڑی
پھر روڑ پر اتر کر
مچوا دی بھگ بھگاڑی
وہ چوک کا سپاہی
روکی تھی جس نے گاڑی
لو وہ بھی کود بھاگا
پھاندی بڑی سی جھاڑی
یوں ڈگمگا کے لڑکے
چاچو کے سارے آڑی
دکھلائیں جیسے سرکس
کچھ مسخرے اناڑی
احمد حاطب صدیقی
دوست
گھر کی دعوت مرغ مسلم
پوچھو کلچہ نان کہاں ہے
ساری قلفی پگھل گئی ہے
فالودے کا خوان کہاں ہے