فیصل عظیم فیصل
محفلین
مثل میداں زندگی کی ہر بساط
کھیلیئے بے خوف ہوکر خوب کھیلا کیجئے
خوف
کھیلیئے بے خوف ہوکر خوب کھیلا کیجئے
خوف
گزر رہی ہے جو دل پر وہی حقیقت ہےزمانہ تو برا نہ تھا مگر اب اس کے باسی بھی
زمانے کی برائی کر کے سمجھے خوب کر بیٹھے
خدا نے بھی زمانے کی قسم کھائی ہے سیما جی
حقیقت تک نہ ہم پہنچے اسے محجوب کر بیٹھے
حقیقت
اگرچہ تلخ ہے پینا حیات کا شربتگزر رہی ہے جو دل پر وہی حقیقت ہے
غم جہاں کا فسانہ غم حیات سے پوچھ
حیات
خالی نہیں ہے کوئی یہاں پر عذاب سےاگرچہ تلخ ہے پینا حیات کا شربت
کسی کی جہد مسلسل خراب کیونکر ہے
عذاب
دروازہ کھٹکھٹا کے ستارے چلے گئےکہاں مے خانہ کا دروازہ غالبؔ اور کہاں واعظ
پر اتنا جانتے ہیں کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے
غالب
دروازہ
بہت شکریہ بھیا یہ شعر بڑے دن سے یاد کررہی تھی !!!یاد ہی نہیں آرہا تھا ۔۔۔وہی ہے زندگی لیکن جگرؔ یہ حال ہے اپنا
کہ جیسے زندگی سے زندگی کم ہوتی جاتی ہے
جگر مراد آبادی
حال
عشق میں عاشق کی یہ معراج ہےشعار اپنا محبت بانٹنا صدیوں سے کہتے ہیں
وہی ظالم کہ لاکھوں جان کے قاتل بنے بیٹھے
قاتل
لگا رہا ہوں مضامین نو کے پھر انبارلکھوں معراج کے مضمون بنا کر میں قلم
ہاتھ آئیں پرِ جبریل اگر آج کی رات
امیر مینائی
مضمون
کھینچ لینا وہ مرا پردے کا کونا دفعتاًکامدانی کا دوپٹا رکھ دیا جب فرش پر
چاندنی کے کھیت میں تاروں کا خرمن ہو گیا
نامعلوم
دوپٹا