ذہن خالی ہےبکھیر دے مجھے چاروں طرف خلاؤں میں
کچھ اس طرح سے الگ کر کہ جڑ نہ پاؤں میں
محمد علوی
خلاؤں/خلا
قمر اس آبلہ پا راہرو کی بے بسی‘ توبہزندگی نام ہے اک جہد مسلسل کا فنا
راہرو اور بھی تھک جاتا ہے آرام کے بعد
فنا نظامی کانپوری
راہرو
روندے ہے نقش پا کی طرح خلق یاں مجھےتیرے نقش پا کی تلاش میں یہ بجا ہے آبلہ پا ہوئے
تیرے جبر سے تو نکل گئے تیری قید سے تو رہا ہوئے
نقش پا
الٰہی رحم اب کیا دیر ہے تنزیل رحمت میںچلی جاتی ہے تو اے عمر رفتہ
یہ ہم کو کس مصیبت میں پھنسا کر
جرأت قلندر بخش
مصیبت
تو غزل بن کے اتر بات مکمل ہو جائے
ہوتا ہے یاں جہاں میں ہر روز و شب تماشاصدیوں میں کوئی ایک محبت ہوتی ہے
باقی تو سب کھیل تماشا ہوتا ہے
تماشا
عجب چراغ ہوں دن رات جلتا رہتا ہوںہوتا ہے یاں جہاں میں ہر روز و شب تماشا
دیکھا جو خوب تو ہے دنیا عجب تماشا
عجب
عشق پر زور نہیں ہے یہ وہ آتش غالبؔعجب چراغ ہوں دن رات جلتا رہتا ہوں
میں تھک گیا ہوں ہوا سے کہو بجھائے مجھے
بجھائے
مہندی لگائے بیٹھے ہیں کچھ اس ادا سے وہعشق پر زور نہیں ہے یہ وہ آتش غالبؔ
کہ لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بنے
لگائے
چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہےاپنی مٹھی میں چھپا کر کسی جگنو کی طرح
ہم ترے نام کو چپکے سے پڑھا کرتے ہیں
علیناعترت
چپکے