کیوں زیاں کار بنوں، سود فراموش رہوں
کیوں زیاں کار بنوں، سود فراموش رہوں
فکرِ فردا نہ کروں، محوِ غم دوش رہوں
دوش
وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہےاِس پہ حیرت کیا لرز اُٹھی زمین کربلا
راکبِ دوشِ پیمبرؐ آخری سجدے میں ہے
افتخار عارف
سجدے
میں سنگ میل تھا تو یہ کرنا پڑا مجھےدل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت درد سے بھر نہ آئے کیوں
روئیں گے ہم ہزار بار کوئی ہمیں ستائے کیوں
مرزا غالب
سنگ
ایک ساحر کبھی گزرا تھا ادھر سے عنبرؔکبھی ملیں گے جو راستے میں تو منہ پھرا کر پلٹ پڑیں گے
کہیں سنیں گے جو نام تیرا تو چپ رہیں گے نظر جھکا کے
ساحر
منہ
ایک ساحر کبھی گزرا تھا ادھر سے عنبرؔ
جائے حیرت کہ سبھی اس کے اثر میں ہیں ابھی
حیرت
عشق کی اک رنگین صدا پر برسے رنگکبھی حیرت کبھی مستی کبھی آہ سحر آگاہی
بدلتا ہے ہزاروں رنگ میرا دردِ مہجوری
رنگ
ہمارے ہاں تو جو روٹھے اُسے مناتے ہیںایک ساحر کبھی گزرا تھا ادھر سے عنبرؔ
جائے حیرت کہ سبھی اس کے اثر میں ہیں ابھی
حیرت
عشق کو دل میں جگہ دے اے اکبر
لفظ نہیں دیا بٹیاہمارے ہاں تو جو روٹھے اُسے مناتے ہیں
تمہارے ہاں نہیں ایسا رواج ، حیرت ہے
جی اپیا اب دیا لفظ شاعریلفظ نہیں دیا بٹیا
بندش الفاظ جڑنے سے نگوں کے کم نہیںعشق کو دل میں جگہ دے اے اکبر
علم سے شاعری نہیں آتی
شاعری
نوکری شاعری گھر بار زمانہ قدریںعشق کو دل میں جگہ دے اے اکبر
علم سے شاعری نہیں آتی
شاعری
تمہیں تمہارے علاوہ بھی کچھ نظر آئےسبھی کہیں مرے غم خوار کے علاوہ بھی
کوئی تو بات کروں یار کے علاوہ بھی
علاوہ
چشم ہو تو آئینہ خانہ ہے دہرتمہیں تمہارے علاوہ بھی کچھ نظر آئے
گر اپنے آئنہ خانوں سے تم نکل آ آؤ
آئنہ خانہ