سیما علی
لائبریرین
سعیِ لا حاصل مداوائے مریضِ عشق ہےچشم ہو تو آئینہ خانہ ہے دہر
منہ نظر آتا ہے دیواروں کے بیچ
میر تقی میر
دیوار
تھامنا ممکن نہیں گرتی ہوئی دھو ا
ممکن
سعیِ لا حاصل مداوائے مریضِ عشق ہےچشم ہو تو آئینہ خانہ ہے دہر
منہ نظر آتا ہے دیواروں کے بیچ
میر تقی میر
دیوار
کیسے ممکن ہے کہ ہر درد اسے دکھلا دوںسعیِ لا حاصل مداوائے مریضِ عشق ہے
تھامنا ممکن نہیں گرتی ہوئی دھو ا
ممکن
پیار جادو ہے کسی دل میں اتر جائے گاکیسے ممکن ہے کہ ہر درد اسے دکھلا دوں
اسم اعظم کوئی سیکھوں کوئی جادو آئے
جادو
خوب بھی تُجھ سا ہے نایاب بھی تیرے جیساپیار جادو ہے کسی دل میں اتر جائے گا
حسن اک خواب ہے اور خواب بکھر جائے گا
خواب
یہی تاریکی تو ہے غازہء رُخسارِ سحرخوب بھی تُجھ سا ہے نایاب بھی تیرے جیسا
زندگی خواب ہے اور خواب بھی تیرے جیسا
اتنی ہمت ہے کہاں مجھ میں کہ دونوں سے لڑ وں
تو بھی اِس سا دِل بے تاب بھی تیرے جیسا
بے تاب
ملت کی آبرو کو ملاتا ہے خاک میںکتاب ملت بیضا کی پھر شیرازہ بندی ہے
یہ شاخ ہاشمی کرنے کو ہے پھر برگ و بر پیدا
علامہ اقبال
ملت
قدم قدم پہ میں سنبھلا ہوں ٹھوکریں کھا کرآنکھیں قدم پر مل کے یہ بولا وہ نام دار
بے اذن جنگ سر نہ اٹھائیں گا خاکسار
میر انیس
قدم
ٹھوکر کسی پتھر سے اگر کھائی ہے میں نےقدم قدم پہ میں سنبھلا ہوں ٹھوکریں کھا کر
یہ ٹھوکروں نے بتایا غلط روی کیا ہے
عروج زیدی بدایونی
ٹھوکر
قمر رضوان قمر
ایک ادنیٰ سی توجہ جو کسی کے دل میں ہے
میں آج زد پہ اگر ہوں تو خوش گمان نہ ہوایک ادنیٰ سی توجہ جو کسی کے دل میں ہے
اک چراغِ رہ گزر ہے جو مری منزل میں ہے
چراغ
میں آج زد پہ اگر ہوں تو خوش گمان نہ ہو
چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں
ہوا
تری جستجو میں نکلے تو عجب سراب دیکھےتو جو چاہے تو اٹھے سینۂ صحرا سے حباب
رہرو دشت ہو سیلی زدۂ موج سراب
علامہ اقبال
سراب
راکھ ہوتے ہوئے ہاتھوں کی جلن ایک طرفجلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہوگا
کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے
مرزا غالب
راکھ