قمر رضوان قمر
محفلین
یہ بھی حسرت رہی ان سے اے قمر
گلے کا ہار بنیں اور جاں لے لیں
جاں
گلے کا ہار بنیں اور جاں لے لیں
جاں
سب سے پیاری ہے جان دنیا میںیہ بھی حسرت رہی ان سے اے قمر
گلے کا ہار بنیں اور جاں لے لیں
جاں
یہ دنیا ہے یہاں ہر کام چلتا ہے سلیقے سےسب سے پیاری ہے جان دنیا میں
جان سے بڑھ کے جان جاں تو ہے
دنیا
زعمِ وفا بھی ہے ہمیں ، عشقِ بُتاں کے ساتھیہ دنیا ہے یہاں ہر کام چلتا ہے سلیقے سے
یہاں پتھر کو بھی لال گراں کہنا ہی پڑتا ہے
گراں
ہو بہ ہو آپ ہی کی مورت ہے
ترے سلوکِ تغافل سے ہو کے سودائی
یہ باتیں جھوٹی باتیں ہیں یہ لوگوں نے پھیلائی ہیںترے سلوکِ تغافل سے ہو کے سودائی
چلا ہوں میں تو کچھ آگے چلی ہے رسوائی
سودائی
حالانکہ سید عاطف علی بھائی کو معلوم کہ ہمیں کون سا والا سلوک یاد آیا ہونا۔۔۔
ایہو جہیا ساڈے نال کر نہ سلوک وے
جندڑی ملوک
الحمداللہ بخیریت ہوں۔ دراصل کام کا بوجھ اتنا ہوتا ہے کہ وقت کم نکلتا ہے بہت ۔ہو بہ ہو آپ ہی کی مورت ہے
زندگی کتنی خوبصورت ہے
یقین
( کیسے ہیں قمر بھائی۔۔۔ اتنے دن کن آسمانوں پہ طلوع ہوتے رہے جو محفل سے ناتہ توڑے رکھا)
ہماری کہکشاں اور آسمان ایک ہی ہے ۔ ہم اس کے علاوہ اور کسی جگہ پر جلوہ نما نہی ہوتےہو بہ ہو آپ ہی کی مورت ہے
زندگی کتنی خوبصورت ہے
یقین
( کیسے ہیں قمر بھائی۔۔۔ اتنے دن کن آسمانوں پہ طلوع ہوتے رہے جو محفل سے ناتہ توڑے رکھا)
ہو بہ ہو آپ ہی کی مورت ہے
زندگی کتنی خوبصورت ہے
یقین
( کیسے ہیں قمر بھائی۔۔۔ اتنے دن کن آسمانوں پہ طلوع ہوتے رہے جو محفل سے ناتہ توڑے رکھا)
یقیں ایسا کہ وہ مار بھی ڈالے مجھ کوہماری کہکشاں اور آسمان ایک ہی ہے ۔ ہم اس کے علاوہ اور کسی جگہ پر جلوہ نما نہی ہوتے
حیرت ہے حق پہ کفر نے احسان کر دیایقیں ایسا کہ وہ مار بھی ڈالے مجھ کو
پھر وہ مانے کہ کہ ایمان محبت پہ مرا ہے
ایمان
قمر رضوان قمر
یقیں ایسا کہ وہ مار بھی ڈالے مجھ کو
پھر وہ مانے کہ کہ ایمان محبت پہ مرا ہے
قمر رضوان قمر
یہ محبت تھی کی احسان تھا مجھ پرحیرت ہے حق پہ کفر نے احسان کر دیا
اِک بُت نے ہم کو صاحبِ ایمان کر دیا
ضامن جعفری
احسان
ایہو جئیاں گلاں ہولی جئی کیا کرو بھئی ۔ترے سلوکِ تغافل سے ہو کے سودائی
چلا ہوں میں تو کچھ آگے چلی ہے رسوائی
ایہو جئیاں گلاں ہولی جئی کیا کرو بھئی ۔
میں آرزوئے جاں لکھوں، یا جانِ آرزو
تو ہی بتا دے ناز سے، ایمانِ آرزو
آرزو
میرے کچھ اشعار خود کے ہوتے ہیںفریب نظر کہوں کہ دلفریب اسے
اسکی نظر پہ دل کا تڑپنا کمال تھا
نظر
دلفریب ادا اور فریب کا عالمیہ فریب تسکیں ہے ترک آرزو معلوم
ترک آرزو میکشؔ یہ بھی آرزو ہی ہے
میکش اکبر آبادی
فریب
لڑائیں آنکھ وہ ترچھی نظر کا وار رہنے دیںفریب نظر کہوں کہ دلفریب اسے
اسکی نظر پہ دل کا تڑپنا کمال تھا
نظر