دیئے گئے لفظ پر شاعری - دوسرا دور

اربش علی

محفلین
ہم تو مائل بہ کرم ہیں، کوئی سائل ہی نہیں
راہ دِکھلائیں کسے، رہروِ منزل ہی نہیں
تربیت عام تو ہے، جوہرِ قابل ہی نہیں
جس سے تعمیر ہو آدم کی، یہ وہ گِل ہی نہیں
کوئی قابل ہو تو ہم شانِ کئی دیتے ہیں
ڈھُونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں
(اقبال، جوابِ شکوہ)

گِل
 
ہم تو مائل بہ کرم ہیں، کوئی سائل ہی نہیں
راہ دِکھلائیں کسے، رہروِ منزل ہی نہیں
تربیت عام تو ہے، جوہرِ قابل ہی نہیں
جس سے تعمیر ہو آدم کی، یہ وہ گِل ہی نہیں
کوئی قابل ہو تو ہم شانِ کئی دیتے ہیں
ڈھُونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں
(اقبال، جوابِ شکوہ)
حق تو یہ ہے کہ ایسا صحت کے ساتھ لکھنا کم کم ہی دیکھا ہے ۔اعراب یعنی حرکات کو جہاں اشد ضرورت تھی ، وہیں پایاجیسے گُل پیش کے ساتھ پھول ہے اور بجھنا بھی ہے جیسے دیا گُل ہوجانا ،یہی گل ، زبر کے ساتھ پنجابی کا لفظ ہوجاتا ہے جس کا مطلب بات ہے، جیسے کوئی تے گل کرو ۔ مگر اقبال کی نظم کے اِس بند میں گل ، زیر کے ساتھ آیا ہے جس کا مطلب مٹی ہے ۔آخر میں گو اگلے شعر کے لیے لفظ نہیں دیا گیا مگر ہم فرض کرلیتے ہیں ،دیتے
دیتے
 
ایثار، خودشناسی، توحید اور صداقت
اے دل ستون ہیں یہ ایوانِ بندگی کے

رنج و اَلَم میں کچھ کچھ آمیزشِ مسرّت
ہیں نقش کیسے دلکش تصویرِ زندگی کے

فرضی خدا بنائے، سجدے کیے بُتوں کو
اللہ رے کرشمے احساسِ کمتری کے

قلب و جگر کے ٹکڑے یہ آنسوؤں کے قطرے
اللہ راس لائے، حاصل ہیں زندگی کے

صحرائیوں سے سیکھے کوئی، رُموزِ ہستی
آبادیوں میں اکثر دشمن ہیں آگہی کے

جانِ خلوص بن کر ہم، اے شکیبؔ، اب تک
تعلیم کر رہے ہیں آدابِ زندگی کے

شکیب جلالی

آگہی
آگہی مجھ کو کھا گئی ورنہ
میں نے جینا تھا اپنے مرنے تک
ورنہ
 
Top