دیئے گئے لفظ پر شاعری - دوسرا دور

غلام ہمدانی مصحؔفی بالحقیقت علم وہنر میں ہمہ دانی کا دعویٰ کرنیکے اہل بلکہ اِس لفظ کو نام کا حصہ بنالینے کا حق رکھتے تھے ۔سویہ کام اُن کے لیے قدرت نے کیا اور والدین سے اُن کا نام غلام ہمدانی رکھوا کر زمانے میں مصحفی کے نام سے اُنہیں مشہور کیا۔میرتقی میؔر کے بعد مصحفی ہی کا کلام اِس لائق ہے کہ پڑھا جائے اور باربار پڑھا جائے ۔ مصحفی ہم تو یہ سمجھے تھے کہ ہوگا کوئی زخم، تیرے دل میں تو بہت کام رُفو کا نکلا، واہ!
آپ نے امانت علی خان کی خوبصورت آواز ، بے ساختہ انداز، قدرتی رنگ اور فطری ڈھنگ میں گائے ہر نغمے کی طرح یہ غزل بھی ضرورسُنی ہوگی ،یہ آرزو تھی تجھے گُل کے رُوبرو کرتے ، ہم اور بلبلِ بے تاب گفتگو کرتے ۔۔۔اُسی غزل کا یہ شعر بھی ہے جو میں ’’دئیے گئے لفظ پر شاعری ‘‘کےلیے پیش کرنے چلا :
ہمیشہ میں نے گریباں کو چاک چاک کیا
تمام عُمر رُفو گر رہے رُفو کرتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ آرزوتھی تجھے گُل کے رُوبرو کرتے ،یہ آرزوتھی تجھے گُل کے رُوبرو کرتے!
خوبصورت آواز ، بے ساختہ انداز ، قدرتی رنگ اور فطری ڈھنگ تو گائیکی میں محمد رفیع کا بھی تھا،مکیش ، ہیمنت کماراورسی ایچ آتماکا بھی تھا، لتا اور آشا،گیتا دت اور شاردا کے اُسلوب کا بھی خاصا یہی تھا ۔مگر ہمارے مہدی حسن کو گاتے وقت بہت زورلگانا پڑتا تھاحالانکہ شہناہِ غزل تھے مگر غزل گائیکی ہی میں اُنہیں اور اُن کی شہنشاہیت کویوں لگتا تھا جیسے بڑے ہی جان لیوا چیلنجز کا سامنا ہے ۔حد یہ کہ اِس زورآزمائی میں اُن کا منہ تک کچھ سے کچھ ہوجاتا ۔ مگر امانت علی خاں کچھ اِس طرح گاتے تھے جیسے ایک موج ہے یا لہر کہ ساحل اور منجدھار سے بے نیاز بہے چلی جارہی ہے بہے چلی جارہی ہے بہے چلی جارہی ہے۔۔۔۔۔۔کہاں بل کھانا ہے، کہاں تیور بدلنے ہیں اور کہاں لَے بڑھانی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ باتیں اِس کی ٹھوکر پہ۔۔۔۔۔۔
چاک
اے چمن والوں ! جنوں کی عظمت دیکھ لی
ان گلوں کو واقف چاک گریباں کر چلے
دو چار ٹانکے اور لگے ہاتھ بخیہ گر
دامن بھی کچھ پھٹا ہے گریباں کے ساتھ ساتھ
بخیہ گر
 
وہ جب بھی کرتے ہیں اِس نطق و لب کی بخیہ گری
فضا۔ میں ۔ اور ۔ بھی ۔ نغمے ۔ بکھرے ۔ لگتے ہیں
نغمے/نغمہ/ نغمات/نغموں/نغمگی جوچاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے!
 
Top