دیئے گئے لفظ پر شاعری - دوسرا دور

سیما علی

لائبریرین
ہے بسکہ ہر اک ان کے اشارے میں نشاں اور
کرتے ہیں محبت تو گزرتا ہے گماں اور
حالانکہ ہے یہ سیلیِ خارا سے لالہ رنگ
غافل کو میرے شیشے پہ مے کا گمان ہے

کی اس نے گرم سینۂ اہلِ ہوس میں جا
آوے نہ کیوں پسند کہ ٹھنڈا مکان ہے

کیا خوب! تم نے غیر کو بوسہ نہیں دیا
بس چپ رہو ہمارے بھی منہ میں زبان ہے

بیٹھا ہے جو کہ سایۂ دیوارِ یار میں
فرماں روائے کشورِ ہندوستان ہے

ہستی کا اعتبار بھی غم نے مٹا دیا
کس سے کہوں کہ داغ جگر کا نشان ہے

ہے بارے اعتمادِ وفاداری اس قدر
غالب ہم اس میں خوش ہیں کہ نا مہربان ہے

مرزا اسد اللہ خان غالب

غافل
 

اربش علی

محفلین
عرضِ نیاز ِعشق کے قابل نہیں رہا
جس دل پہ ناز تھا مجھے، وہ دل نہیں رہا

جاتا ہوں داغ ِحسرتِ ہستی لیے ہوئے
ہوں شمعِ کشتہ، در خور ِمحفل نہیں رہا

مرنے کی اے دل! اور ہی تدبیر کر کہ میں
شایانِ دست و بازوے قاتل نہیں رہا

وا کر دیے ہیں شوق نے بندِ نقابِ حسن
غیر از نگاہ اب کوئی حائل نہیں رہا

گو میں رہا رہینِ ستم ہاے روزگار
لیکن ترے خیال سے غافل نہیں رہا

(غالب)


روزگار
 

سیما علی

لائبریرین
گو میں رہا رہینِ ستم ہاے روزگار
لیکن ترے خیال سے غافل نہیں رہا
اے تو کہ یاں سے عاقبت کار جائے گا
غافل نہ رہ کہ قافلہ اک بار جائے گا

موقوف حشر پر ہے سو آتے بھی وے نہیں
کب درمیاں سے وعدئہ دیدار جائے گا

چھوٹا جو میں قفس سے تو سب نے مجھے کہا
بے چارہ کیونکے تا سر دیوار جائے گا

دے گی نہ چین لذت زخم اس شکار کو
جو کھا کے تیرے ہاتھ کی تلوار جائے گا

آوے گی اک بلا ترے سر سن لے اے صبا
زلف سیہ کا اس کی اگر تار جائے گا

باہر نہ آتا چاہ سے یوسف جو جانتا
لے کارواں مرے تئیں بازار جائے گا

میر تقی میر

عاقبت
 

اربش علی

محفلین
گُلوں میں رنگ بھرے، بادِ نوبہار چلے
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے

قفَس اداس ہے، یارو !صبا سے کچھ تو کہو
کہیں تو بہرِ خدا آج ذکرِ یار چلے

کبھی تو صبح ترے کنجِ لب سے ہو آغاز
کبھی تو شب سرِ کاکل سے مشک بار چلے

بڑا ہے درد کا رشتہ، یہ دل غریب سہی
تمھارے نام پہ آئیں گے غم گسار چلے

جو ہم پہ گزری سو گزری مگر شبِ ہجراں
ہمارے اشک تری عاقبت سنوار چلے

حضورِ یار ہوئی دفترِ جنوں کی طلب
گرہ میں لے کے گریباں کا تار تار چلے

مقام، فیضؔ کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کُوے یار سے نکلے تو سُوے دار چلے


شبِ ہجراں
 

سیما علی

لائبریرین
جو ہم پہ گزری سو گزری مگر شبِ ہجراں
ہمارے اشک تری عاقبت سنوار چلے
شمع گل ہووے جو صبح شبِ ہجراں مانگوں
اوس پڑنی بھی ہو موقوف جو یاراں مانگوں

کب سے در پر ترے سائل ہوں میں آتشؔ کی طرح
وہ ملے مجھ کو جو کچھ اے شہ خوباں مانگوں

یاراں
 

سیما علی

لائبریرین
بھُولے ہیں رفتہ رفتہ انھیں مدتوں میں ہم
قسطوں میں خودکشی کا مزہ ہم سے پوچھیے

مدت
مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوئے
جوش قدح سے بزم چراغاں کیے ہوئے

کرتا ہوں جمع پھر جگر لخت لخت کو
عرصہ ہوا ہے دعوت مژگاں کیے ہوئے
چراغاں
 

اربش علی

محفلین
یاروں کی محبت کا یقیں کر لیا میں نے
پھولوں میں چھپایا ہوا خنجر نہیں دیکھا


خنجر
میرے ہی لہو پر گزر اوقات کرو ہو
مجھ ہی سے امیروں کی طرح بات کرو ہو
دامن پہ کوئی چھینٹ، نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو

لہو
 

اربش علی

محفلین
مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوئے
جوش قدح سے بزم چراغاں کیے ہوئے

کرتا ہوں جمع پھر جگر لخت لخت کو
عرصہ ہوا ہے دعوت مژگاں کیے ہوئے
چراغاں
تجھی کو جو یاں جلوہ فرما نہ دیکھا
برابر ہے دنیا کو دیکھا نہ دیکھا

مرا غنچۂ دل ہے وہ دل گرفتہ
کہ جس کو کسو نے کبھو وا نہ دیکھا

یگانہ ہے تو آہ بیگانگی میں
کوئی دوسرا اور ایسا نہ دیکھا

اذیت، مصیبت، ملامت، بلائیں
ترے عشق میں ہم نے کیا کیا نہ دیکھا

کیا مجھ کو داغوں نے سروِ چراغاں
کبھو تو نے آ کر تماشا نہ دیکھا

تغافل نے تیرے یہ کچھ دن دکھائے
اِدھر تو نے لیکن نہ دیکھا، نہ دیکھا

حجابِ رخِ یار تھے آپ ہی ہم
کھلی آنکھ جب کوئی پردا نہ دیکھا

شب و روز اے دردؔ !در پے ہوں اس کے
کسو نے جسے یاں نہ سمجھا نہ دیکھا

تماشا
 

سیما علی

لائبریرین
میرے ہی لہو پر گزر اوقات کرو ہو
مجھ ہی سے امیروں کی طرح بات کرو ہو
گرے ہیں لفظ ورق پہ لہو لہو ہو کر
محاذ زیست سے لوٹا ہوں سرخ رو ہو کر

اسی کی دید کو اب رات دن تڑپتے ہیں
کہ جس سے بات نہ کی ہم نے دو بدو ہو کر
زیست
 
Top