دیئے گئے لفظ پر شاعری - دوسرا دور

سیما علی

لائبریرین
حدودِ طائر سدرہ، حضور جانتے ہیں کہاں ہے عرشِ معلّی، حضور جانتے ہیں
ہر ایک حرفِ تمنّا، حضور جانتے ہیں تمام حال دلوں کا، حضور
جانتے ہیں

خدا نے اس لئے قاسم انھیں بنایا ہے کہ بانٹنے کا قرینہ حضورﷺ جانتے ہیں
انھیں خبر ہے کہیں سے پڑھو درود ان پر تمام دہر کا نقشہ، حضور جانتے ہیں

بروزِ حشر شفاعت کریں گے چُن چُن کر ہر اک غلام کا چہرہ، حضور جانتے ہیں

بروزِ حشر شفاعت کریں گے وہ لیکن اگر ہوا یہ عقیدہ، حضور جانتے ہیں
پہنچ کے سدرہ پر روح الامین کہنے لگے یہاں سے آگے کا رستہ، حضور جانتے ہیں

میں مانگتا ہوں انھی سے، انھی سے مانگتا ہوں حضور پر بھروسہ، حضور جانتے ہیں
سکھائی بات یہ سرور ہمیں صحابہ نے کہ جانتا ہے خدا یا، حضور جانتے ہیں
کہیں گے خلد میں سرور، نبی کے دیوانے ذرا وہ نعت سنانا،
حضور جانتے ہیں

خلد
 
حدودِ طائر سدرہ، حضور جانتے ہیں کہاں ہے عرشِ معلّی، حضور جانتے ہیں
ہر ایک حرفِ تمنّا، حضور جانتے ہیں تمام حال دلوں کا، حضور
جانتے ہیں

خدا نے اس لئے قاسم انھیں بنایا ہے کہ بانٹنے کا قرینہ حضورﷺ جانتے ہیں
انھیں خبر ہے کہیں سے پڑھو درود ان پر تمام دہر کا نقشہ، حضور جانتے ہیں

بروزِ حشر شفاعت کریں گے چُن چُن کر ہر اک غلام کا چہرہ، حضور جانتے ہیں

بروزِ حشر شفاعت کریں گے وہ لیکن اگر ہوا یہ عقیدہ، حضور جانتے ہیں
پہنچ کے سدرہ پر روح الامین کہنے لگے یہاں سے آگے کا رستہ، حضور جانتے ہیں

میں مانگتا ہوں انھی سے، انھی سے مانگتا ہوں حضور پر بھروسہ، حضور جانتے ہیں
سکھائی بات یہ سرور ہمیں صحابہ نے کہ جانتا ہے خدا یا، حضور جانتے ہیں
کہیں گے خلد میں سرور، نبی کے دیوانے ذرا وہ نعت سنانا،
حضور جانتے ہیں

خلد
نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن
بڑے بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے
غالب
کوچے ،کوچہ
 

سیما علی

لائبریرین
ہر ایک کوچہ ہے ساکت ہر اک سڑک ویراں
ہمارے شہر میں تقریر کر گیا یہ کون


تقریر
تقریر پر ہمیشہ ہمیں جالب صاحب یاد آجاتے ہیں ؀
سرِ منبر وہ خوابوں کے محل تعمیر کرتے ہیں
علاجِ غم نہیں کرتے فقط تقریر کرتے ہیں

بہ ہر عالم خدا کا شکر کیجئے اُن کا کہنا ہے
خطا کرتے ہیں ہم جو شکوہء تقدیر کرتے ہیں

ہماری شاعری میں دل دھڑ کتا ہے زمانے کا
وہ نالاں ہیں ہماری لوگ کیوں توقیر کرتے ہیں

اُنہیں خوشنودئ شاہاں کا دائم پاس رہتا ہے
ہم اپنے شعر سے لوگوں کے دل تسخیر کرتے ہیں

ہمارے ذہن پر چھائے نہیں ہیں حرص کے سائے
جو ہم محسوس کرتے ہیں وہی تحریر کرتے ہیں

بنے پھرتے ہیں کچھ ایسے بھی شاعر اس زمانے میں
ثنا غالب کی کرتے ہیں نہ ذکرِ میر کرتے ہیں

حَسین آنکھوں،مُدھر گیتوں کے سُندر دیس کو کھو کر
میں حیراں ہوں وہ ذکرِوادئ کشمیر کرتے ہیں

ہمارے دردکا جالب مداوا ہو نہیں سکتا
کہ ہر قاتل کو چارہ گر سے ہم تعبیر کرتے ہیں

چارہ گر
 
Top